اجارہ
اسلامی طرق ہائے تمویل میں اجارہ بڑی
اہمیت کا حامل ہے۔مختلف اسلامی بینک اجارہ فائنانسنگ کے عنوان سے اپنے گاہکوں کو
گاڑی کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔عقد اجارہ سے کیا مراد ہے اور اس کا جواز کہاں سے
ثابت ہے. ذیل میں اسی حوالے سے
گفتگو کی جارہی ہے:
اجارہ کی تعریف:
اجارہ ایک ایسا عقد ہےجس میں کسی چیز
کا حق استعمال یا منافع ،متعین رقم کے بدے دوسرے شخص کوفروخت کر دیا جاتا ہے.
اجارہ کا جواز قرآن کریم کی رو سے:
اجارہ کا جواز قرآن، حديث اور اجماع
سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے اجارہ کی مشروعیت کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے۔
جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اجارہ سابقہ امم کے ہاں بھی مشروع تھا۔ مثلاً حضرت
موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ سورۃ الکہف میں موجود ہے کہ جب آپؑ ایک
بستی میں پہنچے اور دیکھا کہ دیوار بس گرنے کے قریب ہے تو حضرت خضر علیہ السلام نے
اسے ہاتھ لگایا اور وہ معجزانہ طور پر ٹھیک ہو گئی تب حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا:
﴿قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾
یعنی ﴿اس (موسیٰ ؑ) نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے﴾۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے مدین پہنچے جہاں اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام موجود تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب حضرت موسیؑ کو صفاتِ محمودہ کا حامل پایا اور بیٹیوں کی زبانی بے پناہ تعریف سنی تو فرمایا:
﴿قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ
إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ
أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ﴾
یعنی ﴿اس (شعیبؑ) نے فرمایا کہ میں اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح
میں دینا چاہتا ہوں اس (مہر )پر کہ آ پ آٹھ سال تک کام کاج کریں۔ ہاں اگر آپ دس
پورے کر دیں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے﴾
اس آیت سے بھی اجارہ کا جواز معلوم
ہوتا ہے۔ جس میں آپ کی آٹھ سالہ اجرت بطور مہر قرار پائی۔
ماقبل دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے
کہ اجارہ سابقہ امتوں کے ہاں جائز تھا اور جو چیز سابقہ امتوں میں جائز ہو ، جب تک
اس کے معارض کی کوئی دلیل نہ ہو تو وہ جائز ہی رہتی ہے۔ اجارہ کی اس مشروعیت کو
قرآن کریم نے بھی بحال رکھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ
فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾
یعنی ﴿پس اگر وہ تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو تم ان کو انکی اجرت دو﴾
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے
فرمایا کہ اگر عورت کو طلاق ہو چکی لیکن خاوند چاہتا ہے کہ شیر خوار بچے کو یہی
عورت دودھ پلائے تو اب خاوند پر لازم ہے کہ وہ اس عورت کو دودھ پلانے کے عوض اجرت
بھی ادا کرے۔ یہ آیت بھی اجارہ کی مشروعیت کو ثابت کرتی ہے۔
اجارہ احادیث کی رو سے:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"قال الله:
ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى
بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ
أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ"
یعنی " اللہ تعالٰى نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن سے بروز قیامت میں جھگڑا
کروں گا۔ ایک تو وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر توڑ دیا، دوسرے وہ جس نے
آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی اور تیسرے وہ جس نے مزدور سے کام تو
پورا لیا مگر اجرت پوری نہ دی"۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے: "أَعْطِ
الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُه" یعنی "
مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرو"۔ حضرت انس بن مالکؓ
سے روایت ہے کہ ابو طیبہ نے آپﷺ کو پچھنے لگائے تو
آپﷺ نے انہیں ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا۔
اجماع:
مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانیؒ نے
اجارہ کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَإِنَّ الْأُمَّةَ أَجْمَعَتْ عَلَى ذَلِكَ قَبْلَ وُجُودِ الْأَصَمِّ حَيْثُ يَعْقِدُونَ عَقْدَ الْإِجَارَةِ مِنْ زَمَنِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ، فَلَا يُعْبَأُ بِخِلَافِهِ إذْ هُوَ خِلَافُ الْإِجْمَاعِ.
اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو بے شک (ابو بکر) اصم سے پہلے امت کا اس پر
اجماع ہے۔ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک بغیر کسی انکار کے عقد اجارہ
ہوتا چلا آرہا تھا۔ ابوبکر اصم کا اختلاف کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اس لئے کہ وہ
اجماع کے خلاف ہے۔
بنیادی طور پر اجارہ کی دو قسمیں ہیں:
ا- اجارہ الاشخاص 2-اجارہ الاعیان
اجارۃ الاشخاص:
اجارۃ الاشخاص سے مراد وہ اجارہ ہے جس
میں کسی شخص کی خدمات متعین اجرت پر حاصل کی جاتی ہیں مثلاً کسی کو ملازم رکھنا،
مزدور سے اجرت پر کام لینا وغیرہ وغیرہ۔اجارہ کی اس قسم کو قرآن مجید نے بھی بیان
کیا ہے.
اجارۃ الاعیان:
اجارۃ الاعیان سے مراد وہ اجارہ ہے جس
میں کسی شے کی متعین منفعت معلوم اجرت کے عوض حاصل کی جاتی ہے مثلاًدکان، مکان،
جانور یا گاڑی کرائے پر حاصل کرنا۔اسلامی بینکوں میں رائج اجارے کا تعلق بھی اسی
دوسری قسم یعنی اجارۃالاعیان سے ہے۔۔اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ، اجارہ منتہیہ
بالتملیک کہلاتا ہےہے جسے یوں بیان کیا گیا ہے کہ :
یہ ایسا اجارہ ہےجو عین مؤجَّرہ(اجارے
پر دی جانے والی چیز ) کی تملیک کے وعدے سےمشروط ہوتا ہے۔ تملیک کا یہ عمل خواہ
مدت ِاجارہ کے اختتام پر ہو یا درمیان میں لیکن اسے شریعہ اسٹينڈرڈ کے بیان کردہ
طُرُق میں سے کسی ایک کے مطابق ہونا چاہیے۔
خالد بن عبد اللہ الحافی اس کی تعریف یہ بیان کرتے ہیں کہ: "یہ دوطرفہ عقد ہے جس میں ایک فریق دوسرے کو متعین سامان متعین اجرت کے بدلے دیتا ہے جس کی ادائیگی اقساط کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس عقد میں آخری قسط کی ادائیگی کے بعد شے کی ملکیت ایک نئے عقد کے ذریعے گاہک کو منتقل کردی جاتی ہے".
اسلامی بینکوں میں اجارہ کے نام سے
ہونے والے عقد کئی عقود کا مجموعہ ہوتا ہےجس کی عملی صورت یہ ہوتی ہے کہ جب کسی
شخص یا ادارے کو مشینری یا گاڑی وغیرہ درکار ہوتی ہے تو وہ اسے بذات خود نہیں
خریدتا جسکی دو وجوہات ہوتی ہیں:
1. پہلی وجہ تو سرماے کی کمی ہے جس میں خریدار یکمشت ادائيگی کے قابل نہیں ہوتا
اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اقساط کی صورت میں خریداری کرے۔
2.
دوسری وجہ یہ ہے کہ کاروبار میں یہ
کوشش کی جاتی ہے کہ لگی بندھی رقم کا ایک بڑا حصہ کہیں مصروف نہ ہو بلکہ کم سے کم
ادائيگی کے ساتھ کاروبار کو جاری رکھا جائے تاکہ سيال سرمایہ ادارے کے پاس رہے جو
بوقت ضرورت مختلف شعبہ جات میں کام آسکے۔
No comments:
Post a Comment