دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے

دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے 


معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آد می کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ بچے اسے خود ان کاموں پر اس کو صرف کرنا چاہیے ۔
"ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو".
ترجمہ: 
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (راہ خدا میں ) وہ کیا خرچ کریں ،فرماؤ جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ۔
"لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شی ء فان اللہ بہ علیم"
ترجمہ :
تم نیکی کا مقام ہر گز نہ پا سکو گے جب تک کہ خرچ نہ کرو اپنے مال جو تمہیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہو گا۔
"والذین فی اموالھم حق معلوم لسائل والمحروم"
ترجمہ:
 (اور دوزخ کی آگ سے محفوظ )وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں سے طے شدہ حصہ ہے مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے ۔
"والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا واٰتو ھم من مال اللہ الذی اٰتٰکم"
ترجمہ: 
اور تمہارے غلاموں میں سے جو معاہدہ کرنا چاہیں ان سے معاہدہ کر لو اگر تم ان کے اندر کوئی بھلائی پاتے ہو،اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے ۔
’’ان مصارف کو قرآن نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی نیکی کہتا ہے بلکہ تاکیداً وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسا نہ کرنے میں معاشرے کی مجموعی ہلاکت ہے ‘‘۔
"وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقو بایدیکم الی التھلکۃ واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین"
ترجمہ:
خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو،اور احسان کرو،اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح :۔
قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضا کارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ رسول اللہ کو یہ ہدایت کی کہ آپ کم سے کم انفاق کی ایک حد مقرر کر کے ایک فریضہ کے طور پر اسلامی ریاست کی طرف سے اس کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کریں ۔
"خذ من اموالھم صدقۃ"
ترجمہ:
 اے حبیب ان کے اموال میں سے ایک صدقہ وصول کرو۔
یہ ’’ایک صدقہ‘‘ کا لفظ اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ عام صدقات ،جو فرد اً فرداً بطور خود لوگ دیتے ہیں ،ان کے علاوہ ایک خاص مقدار صدقہ ان پر فرض کر دی جائے ،اور اس کا تعین رسول اللہ خود کریں ،چنانچہ اس حکم کے مطابق رسول اللہ نے مختلف اقسام کی ملکیتوں کے بارے میں ایک کم سے کم حد مقرر فرما دی جس سے کم پر فرض زکوٰۃ عائد نہ ہو گی ،پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد ملکیتوں پر مختلف اموال کے معاملے میں زکوٰۃ کی حسب ذیل شرح مقرر فرمائی :۔
" سونے چاندی اور زرِ نقد کی صورت میں جو دولت جمع ہو اس پر اڑھائی فیصد سالانہ "۔
"زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ بارانی زمینوں سے ہو 10دس فیصد" ۔
"زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ مصنوعی آب پاشی سے ہو 5پانچ فیصد" ۔
"معدنیات پر جبکہ وہ نجی ملکیت میں ہوں اور ،دفینوں پر 20بیس فیصد" ۔
(مواشی پر ،جو افزائش نسل اور فروخت کی غرض سے پالے جائیں ،زکوٰۃ کی شرح بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ وغیرہ جانوروں کے معاملے مختلف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مضمون کا حصہ نہیں )
یہ مقدار  زکوٰۃ آپ نے اللہ کے حکم سے اسی طرح مسلمانوں پر فرض کی ہے جس طرح پانچ نمازیں آپ نے اس کے حکم سے فرض کی ہیں ،دینی فریضے اور لزوم کے اعتبار سے ان دونوں کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں ہے ،قرآن مجید اس بات کو اسلامی حکومت کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرے ۔
"الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوٰۃ واٰتوا الزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر"
ترجمہ:
(یہ اہل ایمان ،جن کو دفاعی جنگ کی اجازت دی جا رہی ہے ،وہ لوگ ہیں )جنھیں اگر ہم نے زمین میں اقتدار بخشا تو یہ نماز قائم کریں گے ،زکوٰۃ دیں گے ،نیکی کا حکم دیں گے ،اور بدی سے روکیں گے ۔
(فرض زکوٰۃ کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام اگرچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے ،مگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں ،یا مسلم حکومت کے اس طرف سے غفلت برتنے کی صورت میں ،مسلمانوں پر سے یہ فرض ساقط نہیں ہو جاتا ،بالکل اسی طرح جس طرح نما ز کا فرض ساقط نہیں ہوتا ،کوئی اگر وصول کرنے اور تقسیم کرنے والا نہ ہو تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان کو خود اپنے مال سے زکوٰۃ نکالنی اور تقسیم کرنی چاہیے )
نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت :۔
جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کر سکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں ،یا بجا طور پر اندیشہ ہو کہ ضائع کر دیں گے ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کی املاک ان کے اختیار میں نہ دی جائیں ،بلکہ وہ ان کے سر پرست یا قاضی کے انتظام میں رہیں ،اور انہیں صرف اس وقت سونپی جائیں جب اس امر کا اطمینان ہو جائے کہ وہ اپنے معاملات کو ٹھیک طرح سنبھال سکیں گے :
"ولا تو توا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا۰ وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغو االنکاح فان اٰنستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم"
ترجمہ:
اور اپنے اموال ،جنہیں اللہ نے تمہارے لیے زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے ،نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو،البتہ انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے معقول بات کرو،اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ،یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور تم ان میں ہوش مندی محسوس کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ شخصی املاک اگرچہ ان اشخاص ہی کی ملک ہیں جو ان پر قانوناً حق  ملکیت رکھتے ہوں ،لیکن وہ با لکل یہ انھیں کی نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی مفاد بھی وابستہ ہے ،اسی بنا پر قرآن نے اموالھم (ان کے مال) کہنے کے بجائے اموالکم (تمہارے مال ) کے الفاظ استعمال کرتا ہے ،اور اسی بنیاد پر وہ سر پرستوں اور قاضیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ جہاں شخصی املاک میں بے جا تصرف سے معاشرے کا اجتماعی نقصان کیا جا رہا ہو ،یا ایسے نقصان کا معقول اندیشہ ہو ،وہاں مالک کے حقِ ملکیت اور حق  انتفاع کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا حق  تصرف اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔
سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ :۔
جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صرف محض دولت مند طبقوں کے مفاد میں نہیں بلکہ عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے ،اور خصوصیت کے ساتھ ان کے صرف میں معاشرے کے کمزور طبقات کی بھلائی کا زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے ۔
ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ :۔
ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے ،جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال رکھتے ہیں ،اور ان کی دولت کے بھی صرف اس حصے پر یہ بار ڈالا جانا چاہیے جو ان کی ضرورت سے زائد بچتا ہو ۔
"ویسئلونک ماذا ینفقون قل  العفو"
ترجمہ:
اور تم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ،کہو جو  کچھ تمہاری ضرورت سے بچے ۔
اسلامی نظام معیشت کی خصوصیات :۔
قرآن کے ان نکات میں انسان کی معاشی زندگی کے لیے جو اسکیم مرتب کی گئی ہے اس کے بنیادی اصول اور نمایاں خصائص یہ ہیں :
 یہ اسکیم معاشی انصاف ایسے طریقے سے قائم کرتی ہے جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدِ باب بھی ہو ،اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کا نشوونما بھی ہو سکے ،قرآن کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں ہے جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کر سکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا یہ کام ایک اجتماعی مشن کے ذریعے سے ہوتا رہے ،کیوں کہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کے نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا ،قرآن اس کے برعکس وہ معاشرہ بناتا ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضا کارانہ اور بے غرضانہ فیاضی ،ہمدردی اور احسان کا برتاؤ کریں اور اس کی بدولت ان کے درمیان آپس کی محبت فروغ پائے ،اس غرض کے لیے وہ زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم وتربیت کے ذریعہ سے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کرتا ہے ،پھر جو کسر باقی رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ان جبری احکام سے کام لیتا ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں ۔
"اس میں معاشی اقدار کو اخلاقی اقدار سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطۂ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظام حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا گیا ہے جس کی عمارت اسلام نے کلیۃً خدا پر ستانہ تصور کائنات و فلسفۂ اخلاق پر استوار کی ہے "۔
"اس میں زمین کے معاشی وسائل و ذرائع کو نو ع  انسانی پر خدا کا فضل  عام قرار دیا گیا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی ،گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتساب رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیے جائیں" ۔
"اس میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں فرد کے حق ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ اسکیم ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا،ہمسایوں ،دوستوں ،حاجت مند اور کم نصیب انسانوں ،اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتی ہے ،ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابل تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے" ۔
انسانی زندگی کے معاشی نظام کو چلانے کی فطری صورت اس اسکیم کی رو سے یہ ہے کہ افراد اسے آزادانہ سعی و جہد کے ذریعے سے چلائیں اور ترقی دیں ،لیکن یہ آزادانہ سعی و جہد اس میں بے قید نہیں رکھی گئی ہے ،بلکہ معاشرے کی اور خود ان افراد کی اپنی اخلاقی و تمدنی اور معاشی بھلائی کے لیے اسے بعض حدود سے محدود کیا گیا ہے۔
"اس میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی اور میراث یا دوسرے جائز ذرائع سے پائی ہوئی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے اور دونوں صنفوں کو اپنے حق ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں "۔
"اس میں معاشی توازن بر قرار رکھنے کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر خدا کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے ،اور دوسری طرف انہیں اسراف اور فضول خرچی اور عیاشی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے" ۔
"اس میں معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ دولت کا بہاؤ نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل؎ پڑے اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے ،اس کے ساتھ وہ یہ انتظام بھی کرتی ہے کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرد ش میں آئے اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کو حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہوں" ۔
یہ اسکیم معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں کرتی ،چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد وہ اس مقصد کے لیے اپنی تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کرتی ہے تا کہ آزاد سعی و جہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہو سکے ۔
" معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے وہ اس کے اسباب کو ختم کر کے ان کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا کرتی ہے ۔
یہ اصول نبی پاک اور خلفائے راشدین کے عہد میں جس طرح عملاً ریاست اور معاشرے کے نظام میں نافذ کیے گئے تھے اس سے ہم کو احکام اور نظائر کی شکل میں بہت سی مزید تفصیلات حاصل ہوتی ہیں ،لیکن یہ بحث اس باب کے موضوع سے خارج ہے اس کے متعلق حدیث ،فقہ ،تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں وسیع مواد موجود ہے جس کی طرف تفصیلات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہ".

قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی معاشی نظام

قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی معاشی نظام                 

بنیادی حقائق :۔

انسانی معیشت کے بارے میں اولین بنیادی حقیقت ،جسے قرآن مجید بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے ،یہ ہے کہ تمام وہ ذرائع و وسائل جن پر انسان کی معاش کاانحصار ہے ،اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اسی نے ان کو اس طرح بنایا اور قوانینِ فطرت پر قائم کیا ہے کہ وہ انسان کے لیے نافع ہو رہے ہیں ،اوراسی نے انسان کو ان سے انتفاع کا موقع دیا اور ان پر تصرف کا اختیار بخشا ہے :
"ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشو ا فی منا کبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور". 
ترجمہ :وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کر دیا ،پس چلو اس (زمین) کی پہنائیوں میں اور کھاؤ اس (خدا) کا رزق اور اسی کی طرف تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر واپس جانا ہے۔
"وھو الذی مد الارض وجعل فیھا رواسی وانھرا  ومن کل الثمرات جعل فیھا زوجین اثنین".
ترجمہ:اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے ،دریا جاری کیئے اور ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کیں ۔
"ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیع".
ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔
"اللہ الذی خلق السموات والارض وانزل من السمآء مآء فاخرج بہ من الثمرت رزقالکم وسخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخرلکم الانھر وسخرلکم الشمس والقمر دائبین وسخرلکم الیل والنھار واٰتٰکم من کل ما سآلتموہُ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا".
ترجمہ :اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمیں کو پیدا کیا ،اور آسمان سے پانی برسایا ،پھر اس کے ذریعے سے تمہارے رزق کے لیے پھل نکالے،اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا تا کہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے،اور تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا اور سورج اور چاند کو تمہارے مفاد میں ایک دستور پر قائم کیا کہ پیہم گردش کر رہے ہیں ،اور دن اور رات کو تمہارے مفاد میں ایک قانون کا پابند کیا ،اور وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا،اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔
"ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش".
ترجمہ:ہم نے زمین میں تم کو اقتدار بخشا اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے ذرائع فراہم کیئے۔
"افرء یتم ما تحرثون ء انتم تزرعونہ ام نحن الزرعون."
ترجمہ :کیا تم نے غور کیا ،یہ کھیتیاں جو تم بوتے ہو انہیں اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ۔
حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات:۔
اللہ تعالیٰ کی بالا تر ملکیت کے ماتحت اور اس کی عائد کردہ حدود کے اندر قرآن شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے :
"لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم."
ترجمہ:ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ ،مگر یہ کہ تمہارے درمیان تجارت ہو آپس کی رضا مندی سے۔
"واحل اللہ البیع وحرم الربوا".
ترجمہ :اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا۔
"وان تبتم فلکم رء ُوس اموالکم ".
ترجمہ :اور اگر تم سود لینے سے توبہ کر لو تو تمہیں اپنے راس المال واپس لینے کا حق ہے۔
"اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی فاکتبوہُ".
ترجمہ :جب آپس میں کسی مقرر مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اس کی دستاویز لکھ لو۔
"وان کنتم علیٰ سفر ولم تجدو کاتبا فرھن مقبوضۃ".
ترجمہ:اور اگر تم سفر میں ہو اور کاتب نہ پاؤ تو رہن بالقبض رکھو۔
"لرجال نسیب مما ترک الوالدٰن والاقربون ولنساء نسیب مما ترک الوالدٰن والاقربون".
ترجمہ :مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو والدین اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔
"لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتیٰ تستانسوا".
ترجمہ:اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو۔
"اولم یروااناخلقنالھم مما عملت ایدینا انعاما فھملھا ملکون".
ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ان کے لیے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی پیدا کئے اور یہ ان کے مالک ہیں ۔
"والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما".
ترجمہ :اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت ،دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
"واٰتوا حقہ یوم حصادہ."
ترجمہ :اور فصل کاٹنے کے دن (زمین کی پیداوار میں سے )اللہ کا حق ادا کرو۔
"خذ من اموالھم صدقۃ".
ترجمہ :اے محبوب ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرو۔
"واحل لکم ما ورآء ذلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین" .
ترجمہ :اور ان (حرام عورتوں ) کے سوا (باقی عورتوں کے معاملے میں )یہ بات تمہارے لیے حلال کر دی گئی کہ تم انہیں اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو،نکاح کرنے والے بن کر نہ کہ نا جائز تعلقات رکھنے والے بن کر۔
"واٰتواالنساء صدقٰتھن نحلۃ".
ترجمہ :اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو۔
"واٰتیتم احدٰھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا".
ترجمہ :اور اگر تم نے کسی عورت کو (نکاح کے وقت) ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو (طلاق دیتے وقت)اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔
"مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل".
ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بو یا جائے تو اس سے سات بالیں نکلیں ۔
"وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم".
ترجمہ :اور یہ کہ تم اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔
"وفی اموالھم حق لسآئل والمحروم".
ترجمہ :اور ان کے مال میں حق ہے سائل اور محروم کے لئے۔
مذکورہ بالا احکام و ہدایات میں سے کسی کا تصور بھی شخصی ملکیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ،قرآن پاک لازماً ایک ایسی معیشت کا نقشہ پیش کرتا ہے جو اپنے تمام گوشوں میں افراد کے حقوق مالکانہ پر مبنی ہے ،اس میں کہیں اس تصور کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ اشیائے صرف اور وسائل پیداوار میں فرق کر کے صرف مقدم الذکر تک شخصی ملکیت کو محدود رکھا جائے اور موخر الذکر کو اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے ۔اسی طرح اس میں محنت سے کمائی ہوئی دولت اور بلا محنت کمائی ہوئی دولت کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں آتا ۔مثلاً یہ ظاہر بات ہے کہ جو شخص ماں ،باپ اولاد ،بیوی ،شوہر یا بھائی بہن سے کوئی میراث پاتا ہے وہ اس کی محنت سے کمائی ہوئی دولت نہیں ہے ،اور جسے زکوٰۃ دی جاتی ہے اس کے لیے بھی وہ اس کی محنت کی کمائی نہیں ہے

معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل : ۔

قرآن اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے ایک پہلو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح انسانوں کے درمیان رزق اور وسائل زندگی میں بھی مساوات نہیں ہے ،مختلف تمدنی نطاموں کی مصنوعی بے اعتدالیوں سے قطع نظر ،جہاں تک بجائے خود اس فطر ی عدم مساوات کا تعلق ہے اسے قرآن اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا اور اس کی تقسیم و تقدیر کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور اس کی پوری اسکیم میں کہیں اس تخیل کا نشان نہیں ملتا کہ اس عدم مساوات کو مٹا کر کوئی ایسا نظام قائم کرنا مطلوب ہے جس میں سب انسانوں کو ذرائع معاش بربر ملیں ۔
"وھوالذی جعلکم خلئف الارض ورفع بعضکم فوق بعض درجت لیبلوکم فی ما اتکم".
ترجمہ :اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر بلند درجے دیے تا کہ جو کچھ بھی تم لوگوں کو اس نے دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔
"انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض وللا خرۃ اکبر درجت واکبر تفضیلا".
ترجمہ :دیکھو،کس طرح ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے فرق اور تفضیل میں اور بھی زیادہ ہے۔
"اھم یقسمون رحمت ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیٰو ۃ الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجت لیتخذ بعضھم بعضا سخریا ورحمت ربک خیر مما یجمعون" .
ترجمہ :کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان کی معیشت تقسیم کی ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر بلند درجے دیئے ہیں تا کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ دوسرے لوگوں سے کام لیں ،اور تیرے رب کی رحمت تو اس مال و دولت سے بھی بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کرتے ہیں ۔
"ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیر ا بصیر".
ترجمہ : در حقیقت تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے۔
"لہ مقالید السموت والارض یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ بکل شیء علیم".
ترجمہ :آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے قبضے میں ہیں جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا دیتا ہے،وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
"قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ".
ترجمہ :اے حبیب ،کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تُلا کر دیتا ہے۔
قرآن یہ ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کو یہ فطری عدم مساوات ٹھنڈے دل سے قبول کرنی چاہیے اور دوسروں کو جو فضیلت خدا نے بخشی ہو اس پر رشک و حسد نہیں کرنا چاہیے ۔
’’ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن وسٔلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما" .
ترجمہ :اور تمنا نہ کرو اس فضیلت کی جو اللہ نے تم میں سے کسی کو کسی پر عطا کی ہو،مردوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے ان کی کمائی میں سے ،البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو،یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
دو آیتیں جن سے آج کل کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن لوگوں کے درمیان رزق میں مساوات چاہتا ہے ،حسب ذیل ہیں :
"واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلو ابرادی رزقھم علی ما مملکت ایمانھم فھم فیہ سواء افبنعمۃ اللہ یجحدون".
ترجمہ:اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے تو جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دینے والے نہیں ہیں کہ وہ ان کے غلام اس میں برابر ہو جائیں ،پھر کیا اللہ ہی کے احسان کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں ۔
"ضرب لکم مثلا من انفسکم ھل لکم من ما ملکت ایمانکم من شرکاء فی ما رزقنکم فانتم فیہ سواء تخا فونھم کخیفتکم انفسکم کذلک نفصل الایت لقوم یعقلون".
ترجمہ:اللہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے ،کیا تمہارے غلاموں میں سے کچھ غلام اس رزق میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے تمہارے ایسے شریک ہیں کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو ؟اسی طریقہ سے ہم نشانیاں کھول کر پیش کرتے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔
لیکن ان دونوں آیتوں کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں ،اور جس سیاق و سباق میں یہ آئی ہیں اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اصل معاشی عدم مساوات کو مذموم قرار دینے اور اس کو مٹا کر مساوات قائم کرنے کی کوئی تلقین نہیں کی گئی ہے ،بلکہ اس امر واقع کو جو انسانوں میں پایا جاتا ہے ،شرک کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ،یعنی استدلال یہ ہے کہ جب تم اللہ کے دیے ہوئے رزق میں اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ برابر کا شریک بنانے کے لیے تیار نہیں ہو تو اللہ کے متعلق تم نے یہ کیسا تصور قائم کیا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی خدائی میں اس کا شریک ہے ۔

رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندی حدود:۔

قرآن اس حقیقت کو بھی بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا میں اپنی نعمتیں اسی لیے پیدا کی ہیں کہ اس کے بندے ان سے متمتع ہوں ،خدا کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ انسان ان نعمتوں سے اجتناب کر کے رہبانیت اختیار کرے ،البتہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک میں امتیاز کیا جائے،جائز اور ناجائز طریقوں میں فرق کیا جائے ،تمتع اور انتفاع صرف حلال و طیب تک محدود رہے ،اور اس میں بھی حدِ اعتدال سے تجاوز نہ ہو ،
"ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا."
ترجمہ:وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے ۔
"قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق".
ترجمہ:اے حبیب ،ان سے پوچھو،کس نے حرام کر دیا اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور رزق کی عمدہ چیزوں کو؟
"وکلوا مما رزقکم اللہ حلٰلا طیبا واتقوا اللہ الذی انتم بہ مومنون".
ترجمہ:اور کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تم کو بخشی ہیں حلال اور پاکیزہ ،اور بچے رہو اس خدا کی ناراضی سے جس پر تم ایمان لائے ہو۔
"خطوٰت الشیطن انہ لکم عدومبین".
ترجمہ:لوگو ،کھاؤ جو کچھ زمین میں ہے حلال اور پاک ،اور شیطان کے طریقوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
"کلوا واشربوا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین."
ترجمہ:کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو ،اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
"ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا".
ترجمہ:اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی،ہم نے وہ ان پر نہیں لکھی تھی ،مگر صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش (ان پر لازم کی تھی)پس انہوں نے اس کا لحاظ نہ کیا جیسا کہ اس کا حق تھا۔

کسب  مال میں حرام و حلال کا امتیاز:۔

اس غر ض کے لیے قرآن یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے ۔
"یا یھا الذین اٰمنوا لا تاکلو ااموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلو اانفسکم ان اللہ کان بکم رحیما".
ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ ،مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری آپس کی رضا مندی سے ،اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تمہارے اوپر رحیم ہے ۔

کسب مال کے حرام طریقے :۔

باطل طریقوں کی پوری تفصیل تو احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اور قانون اسلامی کی کتابوں میں فقہاء نے بیان کی ہے ،لیکن ان میں سے بعض جن کی صراحت قرآن میں کی گئی ہے ،یہ ہے :
" ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون" .
ترجمہ:اورآپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ،اور نہ ان کو حکام کے سامنے پیش کر و تا کہ کھا جاؤ جانتے بوجھتے لوگوں کے مال گنا ہ کے ساتھ ۔
"فان امن بعضکم بعضاً فلیُو د الذی او تمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ".
ترجمہ:پس اگر تم میں سے ایک شخص دوسرے پر اعتماد کر کے کوئی امانت اس کے سپر د کرے تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے امانت ادا کرنی چاہیے اور اللہ ،اور اللہ اپنے رب کے غضب سے ڈرنا چاہیے ۔
"ومن یغلل یات بما غل یوم القیٰمۃ ثم توفی کل نفس ما کسبت ".
ترجمہ:اور جو کوئی غلول کرے وہ اپنے خیانت کیے ہوئے مال سمیت قیامت کے روز حاضر ہو گا اور ہر ایک کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ ملے گا۔
"والسارق والسارقۃ فاقطعو ایدیھما".
ترجمہ:چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
"ان الذین یا کلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارًا وسیصلون سعیرا".
ترجمہ:جو لوگ یتیموں کے مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں عنقریب وہ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔
اسی طرح قرآن نے حصول دولت کے جن طریقوں کو ممنوع ٹھہرایا ہے وہ بہت زیادہ ہیں مگر مختصراً یہ ہیں :
٭ دوسرے کا مال اس کی رضا کے بغیر اور بلا عوض لینا یا بالعوض اور برضا یا بلا عوض اور برضا اس طرح لینا کہ رضا مندی کسی دباؤ یا دھوکے کا نتیجہ ہو ۔
٭رشوت
٭غصب
٭خیانت خواہ وہ افراد کے مال میں ہو یا پبلک کے مال میں
٭چوری اور ڈاکہ
٭مال یتیم میں بے جا تصرف
٭ناپ تو ل میں کمی بیشی
٭فحش پھیلانے والے ذرائع کا کاروبار
٭گانے بجانے کا پیشہ
٭قحبہ گری اور زنا کی آمدنی
٭شراب کی صنعت اور اس کی بیع اور اس کی حمل و نقل
٭جوا اور تمام وہ طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگو کی طرف منتقل ہونا محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو
٭بت گری ،بت فروشی اور بت خانوں کی خدمات
٭قسمت بتانے اور فال گیری وغیرہ کا کاروبار
٭سود ،خواہ اس کی شرح کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ شخصی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی و صنعتی اور زراعتی ضروریات کے قرضوں پر ۔

بخل اور اکتناز کی ممانعت :۔

دولت حاصل کرنے کے غلط طریقوں کو حرام کرنے کے ساتھ قرآن مجید جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو بھی جمع کر کے روک رکھنے کی سخت مذمت کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ بخل ایک بہت بڑی برائی ہے ۔
"ویل لکل ھمزۃ لمزۃ،الذی جمع مالا وعددہ،یحسب ان مالہ اخلدہ،کلا لینبذن فی الحطمۃ".
ترجمہ:بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عیب چین اور بدگو ہے ،جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا ،ہر گز نہیں ،وہ پھینکا جائے گا توڑ ڈالنے والی آگ میں ۔
"والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم".
ترجمہ:اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک سزا کی خبر دے دو۔
"ومن یوق شح نفسہ فاُولئک ھم المفلحون".
ترجمہ:اور جو دل کی تنگی سے محفوظ رہے ،ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
"ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہ ھو خیر ا لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیمۃ".
ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے ،بلکہ یہ انکے لیے بہت برا ہے جس مال میں انہوں نے بخل کیا ہے اس کا طوق قیامت کے روز ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔

زرپرستی اور حرص مال کی مذمت :۔

اس کے ساتھ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ زر پرستی ،دولت دنیا کی حرص و ہوس ،اور خوشحالی پر فخر و غرور انسان کی گمراہی اور بالآخر اس کی تباہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ۔
"الھکم التکاثر ،حتی زرتم المقابر ،کلا سوف تعلمون".
ترجمہ:تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی فکر نے مستغرق کر رکھا ہے ،قبر میں جانے تک تم اسی فکر میں منہمک رہتے ہو ،یہ ہر گز تمہارے لیے نافع نہیں ہے ،جلدی ہی تم کو اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔
"وکم اھلکنا من قریۃ بطرت معیشتھا فتلک مسکنھم لم تسکن من بعدھم الا قلیلا وکنا نحن الورثین".
ترجمہ:کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جو اپنی معیشت پر اترائیں ،اب دیکھ لو ان کے گھروں کو ،کم ہی کوئی ان کے بعد ان گھروں میں بسا ہے ،اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔
"وما ارسلنا فی قریۃ من نذیر الا قال مترفوھا انا بما ارسلتم بہ کفرون ،وقالو ا نحن اکثر اموالا واولادا وما نحن بمعذبین".
ترجمہ:ہم نے جس بستی میں بھی کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا اس کے دولت مند لوگوں نے اس سے کہا کہ جو پیغامِ رسالت تم لے کر آئے ہو ہم اس کے منکر ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہر گز عذاب پانے والے نہیں ہیں ۔

بے جا خرچ کی مذمت :۔

دوسری طرف قرآن مجید اس بات کی بھی سخت مذمت کرتا ہے کہ انسان جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو ناجائز کاموں میں اڑائے ،یا اپنے ہی عیش اور لطف و لذت پر اسے صرف کرتا چلا جائے اور اپنا معیارِ زندگی زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے سوا اپنی دولت کا کوئی اور مصرف اس کی نگاہ میں نہ ہو ۔
"ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین".
ترجمہ:خرچ میں حد سے نہ  گزرو،اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔
"ولا تبذر تبذیر ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین وکان الشیطٰن لربہ کفورا(بنی اسرائیل".
ترجمہ:فضول خرچی نہ کرو،فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔
"وکلوا واشربو ا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین".
ترجمہ:کھاؤ اور پیو،مگر حد سے نہ گزرو ،اللہ حد سے گزر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
قرآن کی نگاہ میں انسان کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لے ،اس کے مال پر اس کی اپنی ذات کا اور اس کے متعلقین کا حق ہے جسے ادا کرنے میں اس کو بخل بھی نہ کرنا چاہیے ،لیکن صرف یہی ایک حق نہیں ہے کہ وہ سب کچھ اسی پر لٹا دے اور کوئی دوسرا حق نہ پہچانے ۔
"ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا".
ترجمہ:اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے ۔
"والذین اذا انفقو ا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما".
ترجمہ(اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں )جو خرچ میں نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخل ،بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں ۔

Featured Post

اسلامی تجارت

اسلامی تجارت عقائد وعبادات کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان ک...