اسلامی نظامِ معیشت کےاصول اور مقاصد

 اسلامی نظامِ معیشت کےاصول اور مقاصد

نظمِ معیشت کے مقاصد :۔


اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے ،اب جو اصول اسلام نے ہم کو دیے ہیں ان کے بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ہم ان مقاصد کو اچھی طرح سمجھ لیں جنہیں اسلام کے معاشی نظام میں ملحوظ رکھا گیا ہے ،کیوں کہ اس کے بغیر ان اصولوں کو نہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ،نہ حالات و ضروریات پر ان کا انطباق کیا جا سکتا ہے ،اور نہ تفصیلی احکام کا استخراج ان کی حقیقی روح کے مطابق ہو سکتا ہے ۔ 


انسانی آزادی :۔

اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف اس حد تک اس پر پابندی عائد کی جائے جس حد تک نوع  انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے ،اسلام انسان کی آزادی کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے ،یہ جواب دہی مشترک نہیں ہے بلکہ ہر شخص فرداً فرداً ذمہ دار ہے اور اس کو فرداً فرداً اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس جوابدہی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے انتخاب کے مطابق کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے اس لیے اسلام افراد کے لیے اخلاقی اور سیاسی آزادی کے ساتھ ان کی معاشی آزادی کو بھی اہمیت دیتا ہے اگر افراد کو معاشی آزادی حاصل نہ ہو تو ان کی اخلاقی اور سیاسی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے ۔آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو آدمی اپنی معاش کے معاملے میں کسی دوسرے شخص یا ادارے یا حکومت کا دست نگر ہو وہ اگر اپنی کوئی آزادانہ رائے رکھتا بھی ہو تو وہ اپنی اس رائے پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہو سکتا ،اس لیے اسلام معاشی نظام کے لیے ہم کو ایسے اصول دیتا ہے جن سے فرد کے لیے اپنی روزی کمانے کیک معاملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی موجود رہے اور اس پر صرف اتنی پابندی عائد کی جائے جتنی حقیقت میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے اسی لیے اسلام سیاسی نظام بھی ایسا چاہتا ہے جس میں حکومت لوگوں کی آزاد مرضی سے بنے ،لوگ اپنی مرضی سے اس کو بدلنے پر قادر ہوں ،لوگو کے ،یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کے مشورے سے اس کا نظام چلایا جائے ،لوگوں کو اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو،اور حکومت کو غیر محدود اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ وہ ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر کام کرنے کی مجاز ہو جو قرآن و سنت کے بالاتر قانون نے اس کے لیے مقرر کر دیے ہیں اس کے علاوہ اسلام میں خدا کی طرف سے لوگوں کے بنیادی حقوق مستقل طور پر مقرر کر دیے گئے ہیں جنہیں سلب کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے ،یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ افراد کی آزادی محفوظ رہے اور کوئی ایسا جابرانہ نظام مسلط نہ ہونے پائے جس میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ٹھٹھر کر رہ جائے ۔


اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی :۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسن عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی ،ہمدردی ،احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں ،اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑ ھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان ،عبادات،تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے اس کے ذوق کو بدلا جائے،اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس پیدا کی جائے ،جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے ،ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دباؤ سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے ،اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے ۔


تعاون و توافق اور انصاف کا قیام :۔

تیسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے ،اس لیے وہ انسانی معاشرے کو طبقات میں تقسیم نہیں کرتا ،اور فطری طور پر جو طبقات موجود ہیں ان کو طبقاتی نزاع کے بجائے ہمدردی اور تعاون کی راہ دکھاتا ہے انسانی معاشرے کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک قسم کے طبقات وہ جو مصنوعی طور پر ایک ظالمانہ سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام ناروا طریقے سے پیدا کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی ان کو قائم رکھتے ہیں ،مثلاً وہ طبقات جو برہمینت نے پیدا کیے ،یا وہ جو جاگیرداری نظام نے پیدا کیے ،یا وہ جو مغرب کے سرمایہ داری نظام نے پیدا کیے ،اسلام نہ خود ایسے طبقات کو پیدا کرتا ہے اور نہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنی اصلاحی اور قانونی تدابیر سے ان کو ختم کر دیتا ہے ،دوسری قسم کے طبقات وہ ہیں جو انسانی قابلیتوں کے فرق اور انسانی حالات کے فرق کی بنا پر فطرتاً پیدا ہوتے ہیں اور فطری طریقے پر ہی بدلتے رہتے ہیں اسلام ایسے طبقات کو نہ زبردستی مٹاتا ہے نہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل کرتا ہے اور نہ انہیں آپس میں لڑاتا ہے بلکہ وہ اپنے اخلاقی ،سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام کے ذریعے سے ان کے درمیان منصفانہ تعاون پیدا کرتا ہے ان کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے ،اور تمام لوگوں کے لیے مواقع کی یکسانی بھم پہنچا کر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں یہ طبقات فطری طریقے سے تحلیل اور تبدیل ہو تے رہتے ہیں ۔


بنیادی اصول :۔ 

یہ تین چیزیں ہیں جن کو ہم نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ ہماری سمجھ میں آسکیں گے ،اب اس معاشی نظام کے جو بڑے بڑے اصول ہیں وہ میں مختصر طور پر لکھتا ہوں ۔


شخصی ملکیت اور اس کے حدود:۔

اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کے درمیان ،یا محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اور محنت کے بغیر کمائی ہوئی آمدنی کے درمیان فرق نہیں کرتا ،وہ انسان کو ملکیت کا عام حق دیتا ہے ،البتہ اس کو کچھ حدود سے محدود کردیتا ہے ،اسلام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کی حد تک اس کو محدود کر دیا جائے ،اسلامی نقطہ نظر سے ایک شخص جس طرح کپڑے اور برتن اور گھر کا فرنیچر رکھنے کا مجاز ہے اسی طرح وہ زمین اور مشین اور کارخانہ رکھنے کا بھی مجاز ہے ،اسی طرح ایک شخص جس طرح اپنی براہِراست محنت سے کمائی ہوئی دولت کا جائز مالک ہو سکتا ہے اسی طرح وہ اپنے باپ یا ماں یا بیوی یا شوہر کی چھوڑی ہوئی دولت کا بھی مالک ہو سکتا ہے ،اور وہ مضاربت یا شرکت کے اصول پر ایک ایسی کمائی میں حصہ دار بھی بن سکتا ہے جو اس کے دیے ہوئے سامائے پر کام کر کے ایک دوسرے شخص نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو ،اسلام ایک طرح کی ملکیت اور دوسری طرح کی ملکیت کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتا کہ یہ ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے یا اشیائے صرف کی ملکیت ،یا یہ محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے یا بے محنت حاصل کی ہوئی دولت ،بلکہ وہ اس لحاظ سے فرق کرتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے آئی ہے یا ناجائز ذرائع سے ،اور اس کا استعمال آپ صحیح طریقے سے کرتے ہیں یا غلط طریقے سے ،اسلام میں پوری معاشی زندگی کا نقشہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ انسان کچھ حدود کے اندر اپنی معاش کمانے کے لیے آزاد ہے ،اسلام کی نگا ہ میں انسان کی آزادی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور اس آزادی پر ہی وہ آدمیت کے نشوونما کی ساری عمارت تعمیر کرتا ہے ،معاش کے ذرائع و وسائل میں شخصی ملکیت کا حق دینا انسان کو اسی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے ،اگر شخصی ملکیت کا حق اس سے چھین لیا جائے اور تمام وسائل  معاش پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے تو انفرادی آزادی لازماً ختم ہو جاتی ہے ،کیوں کہ اس کے بعد تو معاشرے کے تمام افراد اس ادارے کے ملازم بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پوری مملکت کے وسائل معاش کا کنٹرول ہو ۔


منصفانہ تقسیم :۔

اسلامی نظام  معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم چاہتا ہے اس کے پیش نظر ہر گز یہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان ذرائع زندگی کو برابر تقسیم کیا جائے ،قرآن مجید کو جو شخص بھی پڑے گا اس کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی اس کائنات میں کہیں  بھی مساوی تقسیم نہیں پائی جاتی ، مساوی تقسیم ہے ہی غیر فطری چیز ،کیا تمام انسانوں کو یکساں صحت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کو یکساں ذہانت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کا حافظہ یکساں ہیں ؟کیا تمام انسان حسن میں ،طاقت میں ،قابلیت میں برابر ہیں ؟کیا تمام انسان ایک ہی طرح کے حالاتِ پیدائش میں آنکھیں کھولتے ہیں اور دنیا میں کام کرنے کے لیے بھی سب کو ایک ہی طرح کہ حالات ملتے ہیں ؟اگر ان ساری چیزوں میں مساوات نہیں ہے تو ذرائع پیداوار یا تقسیم دولت میں مساوات کے کیا معنی ؟یہ عملاً ممکن ہی نہیں ہے اور جہاں بھی مصنوعی طور پر اس کی کوشش کی جائے گی وہ لازماً نا کام بھی ہو گی اور غلط نتائج بھی پیدا کرے گی اسی لیے اسلام یہ نہیں کہتا ہے کہ وسائل  معیشت اور ثمراتِ معیشت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہتا ہے کہ منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور اس انصاف کے لیے وہ چند قاعدے مقرر کرتا ہے ۔

ان قواعد میں سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع میں اسلام نے حرام اور حلال کی تمیز قائم کی ہے ایک طرف وہ فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ آزادانہ طریقے سے سعی و جہد کر کے اپنی معاش حاصل کرے اور جو کچھ کمائے وہ اس کی ملکیت ہے دوسری طرف سعی و جہد کرنے کے طریقوں میں اس نے حرام اور حلال کی حدیں مقرر کر دی ہیں اس کے ضابطہ کی رو سے ایک شخص حلال ذرائع سے اپنی روزی کمانے میں پوری طرح آزاد ہے ،جس طرح چاہے کمائے اور جتنا چاہے کمائے ،اس کمائی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک ہے کوئی اس کی جائز ملکیت کو محدود کرنے کا یا اس سے چھین لینے کا حق نہیں رکھتا ،البتہ حرام ذرائع سے ایک حبہ حاصل کرنے کا بھی وہ مجاز نہیں ہے ،ایسی کمائی سے حاصل کی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک نہیں ہے ،اس کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو قید ،جرمانے یا ضبطی مال کی سزا بھی دی جائے گی ،اور ارتکاب  جرم سے اس کو روکنے کی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی ۔

جن ذرائع کو اسلام میں حرام کر دیا گیا ہے وہ یہ ہیں :خیانت ،رشوت ،غصب ،بیت المال میں غبن ،سرقہ ،ناپ تو ل میں کمی ،فحش پھیلانے والے کاروبار ،قحبہ گری ،شراب اور دوسرے مسکرات کی صنعت و تجارت ،سود ،جوا ،سٹہ بیع کے وہ تمام طریقے جو دھوکے یا دباؤ پر مبنی ہوں ،یا جن سے جھگڑے اور فساد کو راہ ملتی ہو ،یا جو انصاف اور مفادِ عامہ کے خلاف ہوں ۔ان ذرائع کو اسلام اَز رُوئے قانون روک دیتا ہے ان کے علاوہ وہ احتکار کو ممنوع ٹھہراتا ہے اور ایسی اجارہ داریوں کو روکتا ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر دولت اور اسی پیدائش کے وسائل سے عام لوگوں کو استفادہ کے مواقع سے محروم کرتی ہوں ۔

ان طریقوں کو چھوڑ کر جائز ذرائع سے جو دولت آدمی کمائے وہ اس کی حلال کمائی ہے ،اس حلال دولت سے وہ خود بھی استفادہ کر سکتا ہے ،ہبہ اور بخشش سے دوسروں کی طرف منتقل بھی کر سکتا ہے ،مزید دولت کمانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے ،اور اپنے وارثوں کے لیے میراث بھی چھوڑ سکتا ہے ،اس جائزکمائی پر کوئی پابندی ایسی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر جاکر مزید کمانے سے روک دیتی ہیء ،ایک شخص حلال ذرائع سے کروڑ پتی بن سکتا ہے تو اسلام اس کے راستے میں حائل نہیں ہے ،جتنی ترقی بھی وہ معاشی حیثیت سے کر سکتا ہے کرے ،مگر جائز ذرائع سے کرے اگرچہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بننا آسان کام نہیں ہے ،غیر معمولی ہی کسی شخص پر اللہ کا فضل ہو جائے تو ہو جائے ،ورنہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بن جانے کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے لیکن اسلام کسی کو باندھ کر نہیں رکھتا ،حلال ذرائع سے وہ جتنا بھی کما سکتا ہو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ،کیونکہ بے جا رکاوٹوں اور حد بندیوں سے انسان کے لیے محنت کرنے کا کوئی محرک باقی نہیں رہتا ۔

اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں :

اس کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسے اپنی ذات پر خرچ کریاس خرچ پر اسلام ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جن سے وہ آدمی نے اپنے اخلاق اور معاشرے کے لیے کسی طرح نقصان دہ نہ ہوسکے ،وہ شراب نہیں پی سکتا ،زنا نہیں کر سکتا ،جوئے بازی میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتا ،عیاشی کی کوئی خلافِ اخلاق سورت اختیار نہیں کرسکتا ،سونے چاندی کے برتن استعمال نہیں کر سکتا ،حتیٰ کہ اگر رہن سہن میں وہ بہت زیادہ شان و شوکت اختیار کرے تو اس پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس کا کم و بیش کوئی حصہ بچا لے اور اس کو روک رکھے اسلام اس کو پسند نہیں کرتا ،وہ چاہتا ہے کہ جو دولت بھی کسی کے پاس پہنچ گئی ہے وہ رک کر نہ رہ جائے بلکہ جائز طریقوں سے گردش میں آتی رہے رکی ہوئی دولت پر ایک خاص قانون کے مطابق اسلام زکوٰۃ عائد کرتا ہے تاکہ اس کا ایک حصہ لازماً محروم طبقات اور اجتماعی خدمات کے لیے استعمال ہو ،قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جن افعال کی اس میں سخت مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ آدمی خزانے جمع کرنے کی کوشش کرے ،وہ کہتا ہے کہ جو لوگ سونے اور چاندی کے ذخیرے جمع کرتے ہیں ان کا جمع کیا ہوا سونا اور چاندی جہنم میں ان کو داغنے کے لیے استعمال کیا جائے گا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت خدا نے نوع انسانی کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے اسے بند کر کے رکھ لینے کا کسی کو حق نہیں ہے ،آپ جائز ذرائع سے کمائیے ،اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور پھر جو کچھ بچے اسے کسی نہ کسی طرح جائز طریقے سے گردش میں لائے ۔

اسی لیے اسلام احتکار کو بھی منع کرتا ہے احتکار کے معنی یہ ہیں کہ آپ اشیائے ضرورت کو قصداً روک کر رکھیں تا کہ بازار میں ان کی رسد کم ہو اور قیمتیں چڑھ جائیں یہ حرکت اسلامی قانون میں حرام ہے آدمی کو سیدھی طرح تجارت کرنی چاہیے اگر آپ کے پاس کوئی مال بیچنے کے لیے موجود ہے اور بازار میں اس کی مانگ ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ آپ اسے فروخت کرنے سے انکار کریں جان بوجھ کر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا کرنے کے لیے فروخت سے انکار کر دینا آدمی کو تاجر کے بجائے لٹیرا بنا دیتا ہے ۔

اسی بنا ء پر اسلام بے جا نوعیت کی اجارہ داریوں کا بھی مخالف ہے ،کیوں کہ وہ وسائل معاش سے عام لوگوں کے استفادے میں مانع ہوتی ہیں اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کسب معیشت کے کچھ مواقع اور ذرائع بعض خاص اشخاص یا خاندانوں یا طبقوں کے لیے مخصوص کر دیے جائیں اور دوسرے اگر اس میدان میں آنا چاہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی جائے ،اجارہ داری اگر کسی نوعیت کی جائز ہے تو صرف وہ جو اجتماعی مفاد کے لیے بالکل ناگزیر ہو ،ورنہ اصولا ً اسلام یہ چاہتا ہے کہ جدوجہد کا میدان سب کے لیے کھلا رہے اور ہر شخص کو اس میں ہاتھ پاوں مارنے کے مواقع حاصل رہیں ۔بچی ہوئی دولت کو اگر کوئی شخص مزید دولت کمانے میں استعمال کرنا چاہے تو یہ استعمال صرف ان طریقوں سے ہو سکتا ہے جو کسب  معیشت کے لیے اسلام میں حلال قرار دیئے گئے ہیں.

دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے

دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے 


معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آد می کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ بچے اسے خود ان کاموں پر اس کو صرف کرنا چاہیے ۔
"ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو".
ترجمہ: 
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (راہ خدا میں ) وہ کیا خرچ کریں ،فرماؤ جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ۔
"لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شی ء فان اللہ بہ علیم"
ترجمہ :
تم نیکی کا مقام ہر گز نہ پا سکو گے جب تک کہ خرچ نہ کرو اپنے مال جو تمہیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہو گا۔
"والذین فی اموالھم حق معلوم لسائل والمحروم"
ترجمہ:
 (اور دوزخ کی آگ سے محفوظ )وہ لوگ ہیں جن کے مالوں میں سے طے شدہ حصہ ہے مدد مانگنے والے اور محروم کے لیے ۔
"والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا واٰتو ھم من مال اللہ الذی اٰتٰکم"
ترجمہ: 
اور تمہارے غلاموں میں سے جو معاہدہ کرنا چاہیں ان سے معاہدہ کر لو اگر تم ان کے اندر کوئی بھلائی پاتے ہو،اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے ۔
’’ان مصارف کو قرآن نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی نیکی کہتا ہے بلکہ تاکیداً وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسا نہ کرنے میں معاشرے کی مجموعی ہلاکت ہے ‘‘۔
"وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقو بایدیکم الی التھلکۃ واحسنوا ان اللہ یحب المحسنین"
ترجمہ:
خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو،اور احسان کرو،اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح :۔
قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضا کارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ رسول اللہ کو یہ ہدایت کی کہ آپ کم سے کم انفاق کی ایک حد مقرر کر کے ایک فریضہ کے طور پر اسلامی ریاست کی طرف سے اس کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کریں ۔
"خذ من اموالھم صدقۃ"
ترجمہ:
 اے حبیب ان کے اموال میں سے ایک صدقہ وصول کرو۔
یہ ’’ایک صدقہ‘‘ کا لفظ اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ عام صدقات ،جو فرد اً فرداً بطور خود لوگ دیتے ہیں ،ان کے علاوہ ایک خاص مقدار صدقہ ان پر فرض کر دی جائے ،اور اس کا تعین رسول اللہ خود کریں ،چنانچہ اس حکم کے مطابق رسول اللہ نے مختلف اقسام کی ملکیتوں کے بارے میں ایک کم سے کم حد مقرر فرما دی جس سے کم پر فرض زکوٰۃ عائد نہ ہو گی ،پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد ملکیتوں پر مختلف اموال کے معاملے میں زکوٰۃ کی حسب ذیل شرح مقرر فرمائی :۔
" سونے چاندی اور زرِ نقد کی صورت میں جو دولت جمع ہو اس پر اڑھائی فیصد سالانہ "۔
"زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ بارانی زمینوں سے ہو 10دس فیصد" ۔
"زرعی پیداوار پر ،جبکہ وہ مصنوعی آب پاشی سے ہو 5پانچ فیصد" ۔
"معدنیات پر جبکہ وہ نجی ملکیت میں ہوں اور ،دفینوں پر 20بیس فیصد" ۔
(مواشی پر ،جو افزائش نسل اور فروخت کی غرض سے پالے جائیں ،زکوٰۃ کی شرح بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ وغیرہ جانوروں کے معاملے مختلف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مضمون کا حصہ نہیں )
یہ مقدار  زکوٰۃ آپ نے اللہ کے حکم سے اسی طرح مسلمانوں پر فرض کی ہے جس طرح پانچ نمازیں آپ نے اس کے حکم سے فرض کی ہیں ،دینی فریضے اور لزوم کے اعتبار سے ان دونوں کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں ہے ،قرآن مجید اس بات کو اسلامی حکومت کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرے ۔
"الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوٰۃ واٰتوا الزکوٰۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر"
ترجمہ:
(یہ اہل ایمان ،جن کو دفاعی جنگ کی اجازت دی جا رہی ہے ،وہ لوگ ہیں )جنھیں اگر ہم نے زمین میں اقتدار بخشا تو یہ نماز قائم کریں گے ،زکوٰۃ دیں گے ،نیکی کا حکم دیں گے ،اور بدی سے روکیں گے ۔
(فرض زکوٰۃ کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام اگرچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے ،مگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں ،یا مسلم حکومت کے اس طرف سے غفلت برتنے کی صورت میں ،مسلمانوں پر سے یہ فرض ساقط نہیں ہو جاتا ،بالکل اسی طرح جس طرح نما ز کا فرض ساقط نہیں ہوتا ،کوئی اگر وصول کرنے اور تقسیم کرنے والا نہ ہو تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان کو خود اپنے مال سے زکوٰۃ نکالنی اور تقسیم کرنی چاہیے )
نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت :۔
جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کر سکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں ،یا بجا طور پر اندیشہ ہو کہ ضائع کر دیں گے ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کی املاک ان کے اختیار میں نہ دی جائیں ،بلکہ وہ ان کے سر پرست یا قاضی کے انتظام میں رہیں ،اور انہیں صرف اس وقت سونپی جائیں جب اس امر کا اطمینان ہو جائے کہ وہ اپنے معاملات کو ٹھیک طرح سنبھال سکیں گے :
"ولا تو توا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا۰ وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغو االنکاح فان اٰنستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم"
ترجمہ:
اور اپنے اموال ،جنہیں اللہ نے تمہارے لیے زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے ،نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو،البتہ انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے معقول بات کرو،اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ،یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور تم ان میں ہوش مندی محسوس کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ شخصی املاک اگرچہ ان اشخاص ہی کی ملک ہیں جو ان پر قانوناً حق  ملکیت رکھتے ہوں ،لیکن وہ با لکل یہ انھیں کی نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی مفاد بھی وابستہ ہے ،اسی بنا پر قرآن نے اموالھم (ان کے مال) کہنے کے بجائے اموالکم (تمہارے مال ) کے الفاظ استعمال کرتا ہے ،اور اسی بنیاد پر وہ سر پرستوں اور قاضیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ جہاں شخصی املاک میں بے جا تصرف سے معاشرے کا اجتماعی نقصان کیا جا رہا ہو ،یا ایسے نقصان کا معقول اندیشہ ہو ،وہاں مالک کے حقِ ملکیت اور حق  انتفاع کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا حق  تصرف اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔
سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ :۔
جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں ،ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صرف محض دولت مند طبقوں کے مفاد میں نہیں بلکہ عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے ،اور خصوصیت کے ساتھ ان کے صرف میں معاشرے کے کمزور طبقات کی بھلائی کا زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے ۔
ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ :۔
ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے ،جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال رکھتے ہیں ،اور ان کی دولت کے بھی صرف اس حصے پر یہ بار ڈالا جانا چاہیے جو ان کی ضرورت سے زائد بچتا ہو ۔
"ویسئلونک ماذا ینفقون قل  العفو"
ترجمہ:
اور تم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ،کہو جو  کچھ تمہاری ضرورت سے بچے ۔
اسلامی نظام معیشت کی خصوصیات :۔
قرآن کے ان نکات میں انسان کی معاشی زندگی کے لیے جو اسکیم مرتب کی گئی ہے اس کے بنیادی اصول اور نمایاں خصائص یہ ہیں :
 یہ اسکیم معاشی انصاف ایسے طریقے سے قائم کرتی ہے جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدِ باب بھی ہو ،اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کا نشوونما بھی ہو سکے ،قرآن کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں ہے جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کر سکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا یہ کام ایک اجتماعی مشن کے ذریعے سے ہوتا رہے ،کیوں کہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کے نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا ،قرآن اس کے برعکس وہ معاشرہ بناتا ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضا کارانہ اور بے غرضانہ فیاضی ،ہمدردی اور احسان کا برتاؤ کریں اور اس کی بدولت ان کے درمیان آپس کی محبت فروغ پائے ،اس غرض کے لیے وہ زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم وتربیت کے ذریعہ سے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کرتا ہے ،پھر جو کسر باقی رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ان جبری احکام سے کام لیتا ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں ۔
"اس میں معاشی اقدار کو اخلاقی اقدار سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطۂ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظام حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا گیا ہے جس کی عمارت اسلام نے کلیۃً خدا پر ستانہ تصور کائنات و فلسفۂ اخلاق پر استوار کی ہے "۔
"اس میں زمین کے معاشی وسائل و ذرائع کو نو ع  انسانی پر خدا کا فضل  عام قرار دیا گیا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی ،گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتساب رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیے جائیں" ۔
"اس میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں فرد کے حق ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ اسکیم ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا،ہمسایوں ،دوستوں ،حاجت مند اور کم نصیب انسانوں ،اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتی ہے ،ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابل تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے" ۔
انسانی زندگی کے معاشی نظام کو چلانے کی فطری صورت اس اسکیم کی رو سے یہ ہے کہ افراد اسے آزادانہ سعی و جہد کے ذریعے سے چلائیں اور ترقی دیں ،لیکن یہ آزادانہ سعی و جہد اس میں بے قید نہیں رکھی گئی ہے ،بلکہ معاشرے کی اور خود ان افراد کی اپنی اخلاقی و تمدنی اور معاشی بھلائی کے لیے اسے بعض حدود سے محدود کیا گیا ہے۔
"اس میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی اور میراث یا دوسرے جائز ذرائع سے پائی ہوئی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے اور دونوں صنفوں کو اپنے حق ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں "۔
"اس میں معاشی توازن بر قرار رکھنے کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر خدا کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے ،اور دوسری طرف انہیں اسراف اور فضول خرچی اور عیاشی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے" ۔
"اس میں معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ دولت کا بہاؤ نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل؎ پڑے اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے ،اس کے ساتھ وہ یہ انتظام بھی کرتی ہے کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گرد ش میں آئے اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کو حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہوں" ۔
یہ اسکیم معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں کرتی ،چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد وہ اس مقصد کے لیے اپنی تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کرتی ہے تا کہ آزاد سعی و جہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہو سکے ۔
" معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے وہ اس کے اسباب کو ختم کر کے ان کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا کرتی ہے ۔
یہ اصول نبی پاک اور خلفائے راشدین کے عہد میں جس طرح عملاً ریاست اور معاشرے کے نظام میں نافذ کیے گئے تھے اس سے ہم کو احکام اور نظائر کی شکل میں بہت سی مزید تفصیلات حاصل ہوتی ہیں ،لیکن یہ بحث اس باب کے موضوع سے خارج ہے اس کے متعلق حدیث ،فقہ ،تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں وسیع مواد موجود ہے جس کی طرف تفصیلات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہ".

Featured Post

اسلامی تجارت

اسلامی تجارت عقائد وعبادات کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان ک...