اجارہ



اجارہ

اسلامی طرق ہائے تمویل میں اجارہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مختلف اسلامی بینک اجارہ فائنانسنگ کے عنوان سے اپنے گاہکوں کو گاڑی کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔عقد اجارہ سے کیا مراد ہے اور اس کا جواز کہاں سے ثابت ہے. ذیل میں اسی حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے:

اجارہ کی تعریف:

اجارہ ایک ایسا عقد ہےجس میں کسی چیز کا حق استعمال یا منافع ،متعین رقم کے بدے دوسرے شخص کوفروخت کر دیا جاتا ہے.

اجارہ کا جواز قرآن کریم کی رو سے:

اجارہ کا جواز قرآن، حديث اور اجماع سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے اجارہ کی مشروعیت کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اجارہ سابقہ امم کے ہاں بھی مشروع تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ سورۃ الکہف میں موجود ہے کہ جب آپؑ ایک بستی میں پہنچے اور دیکھا کہ دیوار بس گرنے کے قریب ہے تو حضرت خضر علیہ السلام نے اسے ہاتھ لگایا اور وہ معجزانہ طور پر ٹھیک ہو گئی تب حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا:
 ﴿قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ یعنی ﴿اس (موسیٰ ؑ) نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے﴾۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے مدین پہنچے جہاں اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام موجود تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب حضرت موسیؑ کو صفاتِ محمودہ کا حامل پایا اور بیٹیوں کی زبانی بے پناہ تعریف سنی تو فرمایا:

 ﴿قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ﴾ یعنی ﴿اس (شعیبؑ) نے فرمایا کہ میں اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس (مہر )پر کہ آ پ آٹھ سال تک کام کاج کریں۔ ہاں اگر آپ دس پورے کر دیں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے﴾

اس آیت سے بھی اجارہ کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ جس میں آپ کی آٹھ سالہ اجرت بطور مہر قرار پائی۔

ماقبل دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اجارہ سابقہ امتوں کے ہاں جائز تھا اور جو چیز سابقہ امتوں میں جائز ہو ، جب تک اس کے معارض کی کوئی دلیل نہ ہو تو وہ جائز ہی رہتی ہے۔ اجارہ کی اس مشروعیت کو قرآن کریم نے بھی بحال رکھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ﴿فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾ یعنی ﴿پس اگر وہ تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو تم ان کو انکی اجرت دو﴾
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر عورت کو طلاق ہو چکی لیکن خاوند چاہتا ہے کہ شیر خوار بچے کو یہی عورت دودھ پلائے تو اب خاوند پر لازم ہے کہ وہ اس عورت کو دودھ پلانے کے عوض اجرت بھی ادا کرے۔ یہ آیت بھی اجارہ کی مشروعیت کو ثابت کرتی ہے۔ 

اجارہ احادیث کی رو سے:

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "قال الله: 
ثَلاَثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ" 
یعنی " اللہ تعالٰى نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن سے بروز قیامت میں جھگڑا کروں گا۔ ایک تو وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر توڑ دیا، دوسرے وہ جس نے آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی اور تیسرے وہ جس نے مزدور سے کام تو پورا لیا مگر اجرت پوری نہ دی"۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے: "أَعْطِ الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُه" یعنی " مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرو"۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ابو طیبہ نے آپﷺ کو پچھنے لگائے تو آپﷺ نے انہیں ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا۔ 

اجماع:

مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانیؒ نے اجارہ کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَإِنَّ الْأُمَّةَ أَجْمَعَتْ عَلَى ذَلِكَ قَبْلَ وُجُودِ الْأَصَمِّ حَيْثُ يَعْقِدُونَ عَقْدَ الْإِجَارَةِ مِنْ زَمَنِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ، فَلَا يُعْبَأُ بِخِلَافِهِ إذْ هُوَ خِلَافُ الْإِجْمَاعِ.

اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو بے شک (ابو بکر) اصم سے پہلے امت کا اس پر اجماع ہے۔ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک بغیر کسی انکار کے عقد اجارہ ہوتا چلا آرہا تھا۔ ابوبکر اصم کا اختلاف کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اس لئے کہ وہ اجماع کے خلاف ہے۔

علامہ ابن رشد فرماتے ہیں کہ اجارہ تمام علاقوں کے علماء کے ہاں جائز ہے۔
بنیادی طور پر اجارہ کی دو قسمیں ہیں:
                            ا- اجارہ الاشخاص   2-اجارہ الاعیان

اجارۃ الاشخاص:

اجارۃ الاشخاص سے مراد وہ اجارہ ہے جس میں کسی شخص کی خدمات متعین اجرت پر حاصل کی جاتی ہیں مثلاً کسی کو ملازم رکھنا، مزدور سے اجرت پر کام لینا وغیرہ وغیرہ۔اجارہ کی اس قسم کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے.

اجارۃ الاعیان:

اجارۃ الاعیان سے مراد وہ اجارہ ہے جس میں کسی شے کی متعین منفعت معلوم اجرت کے عوض حاصل کی جاتی ہے مثلاًدکان، مکان، جانور یا گاڑی کرائے پر حاصل کرنا۔اسلامی بینکوں میں رائج اجارے کا تعلق بھی اسی دوسری قسم یعنی اجارۃالاعیان سے ہے۔۔اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ، اجارہ منتہیہ بالتملیک کہلاتا ہےہے جسے یوں بیان کیا گیا ہے کہ :

یہ ایسا اجارہ ہےجو عین مؤجَّرہ(اجارے پر دی جانے والی چیز ) کی تملیک کے وعدے سےمشروط ہوتا ہے۔ تملیک کا یہ عمل خواہ مدت ِاجارہ کے اختتام پر ہو یا درمیان میں لیکن اسے شریعہ اسٹينڈرڈ کے بیان کردہ طُرُق میں سے کسی ایک کے مطابق ہونا چاہیے۔


خالد بن عبد اللہ الحافی اس کی تعریف یہ بیان کرتے ہیں کہ: "یہ دوطرفہ عقد ہے جس میں ایک فریق دوسرے کو متعین سامان متعین اجرت کے بدلے دیتا ہے جس کی ادائیگی اقساط کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس عقد میں آخری قسط کی ادائیگی کے بعد شے کی ملکیت ایک نئے عقد کے ذریعے گاہک کو منتقل کردی جاتی ہے".

اسلامی بینکوں میں اجارہ کے نام سے ہونے والے عقد کئی عقود کا مجموعہ ہوتا ہےجس کی عملی صورت یہ ہوتی ہے کہ جب کسی شخص یا ادارے کو مشینری یا گاڑی وغیرہ درکار ہوتی ہے تو وہ اسے بذات خود نہیں خریدتا جسکی دو وجوہات ہوتی ہیں:

1.    پہلی وجہ تو سرماے کی کمی ہے جس میں خریدار یکمشت ادائيگی کے قابل نہیں ہوتا اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اقساط کی صورت میں خریداری کرے۔

2.    دوسری وجہ یہ ہے کہ کاروبار میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ لگی بندھی رقم کا ایک بڑا حصہ کہیں مصروف نہ ہو بلکہ کم سے کم ادائيگی کے ساتھ کاروبار کو جاری رکھا جائے تاکہ سيال سرمایہ ادارے کے پاس رہے جو بوقت ضرورت مختلف شعبہ جات میں کام آسکے۔

ان دو وجوہات کے پیش نظر گاہک بینک کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اجارہ کی سہولت حاصل کر سکے۔ گاہک کا مطلوبہ اثاثہ عموماً بینک کے پاس نہیں ہوتا بلکہ وہ گاہک کی طلب پر ہی اسے خریدتا ہے۔ لہٰذا بینک اس بات کا متمنی ہوتا ہے کہ گاہک بھر پور یقین دہانی کروائے کہ وہ واقعی اس سے اثاثہ حاصل کرے گا ۔

اسلامی تجارت

اسلامی تجارت

عقائد وعبادات کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان کیے گئے ہیں، اسی طرح شریعت اسلامی نے معاملات کی تفصیلات بھی بیان کرنے کا اہتمام کیاہے، حلال وحرام، مکروہ اور غیر مکروہ، جائز اور طیب مال کے مکمل احکام قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور شریعت کی دیگر جزئیات کی طرح اس میں بھی مکمل راہ نمائی کی گئی ہے، جو لوگ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں، مگر صفائی معاملات اور جائز وناجائز کی فکر نہیں کرتے، وہ کبھی الله کے مقرب نہیں ہو سکتے، اس لیے ان کا عمل شریعت پر ناقص ہے، افسوس ہے کہ عرصہٴ دراز سے مسلمانوں کے درمیان معاملات سے متعلق جوشرعی احکام ہیں ان کی اہمیت دلوں سے مٹ گئی ہے اور دین صرف عقائد وعبادات کا نام سمجھا جانے لگا، حلال وحرام کی فکر رفتہ رفتہ ختم ہو گئی ہے اور دن بہ دن اس سے غفلت بڑھتی جارہی ہے، جس کے سبب مسلمان اقتصادیات میں پیچھے ہیں اور خاطر خواہ معاشیات میں انہیں ترقی نہیں مل رہی ہے۔

تجارت کسب معاش کا بہترین طریقہ ہے، اسے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق انجام دیا جائے تو دنیوی اعتبار سے یہ تجارت نفع بخش ہو گی اور اخروی اعتبار سے بھی یہ بڑے اونچے مقام اور انتہائی اجر وثواب کا موجب ہو گی، تجارت اگرچہ دنیا کے حصول اور مالی منفعت کے لیے کی جاتی ہے، تاہم یہ خدا کا فضل ہے کہ زاویہٴ نگاہ اگر تھوڑا سا تبدیل کر دیا جائے اور تجارت کرنے والے یہ سوچ لیں کہ خدا کا حکم ہے، حلال روزی کی تلاش اور حلال پیسوں کے ذریعے اولاد کی پرورش ، بیوی اور والدین کی ضروریات کی تکمیل، اس لیے ماتحتوں کے حقوق ادا کرنے اور غریب ونادار افراد کی مدد کرنے کے لیے یہ کاروبار کر رہے ہیں او رپھر وہ کاروبار بھی اسلامی اصول کی روشنی میں کیا جائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء وصلحاء کی معیت کی خوش خبری دی گئی ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:

”التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشھداء“․ (سنن الترمذي، حدیث نمبر:1252)

”جو تاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔“

ایک دوسری روایت میں ہے:”التجار یحشرون یوم القیامة فجاراً، إلامن اتقی وَبَرَّ وصدق“․(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر:4540)

”تجار قیامت کے دن فاسق وفاجر بنا کر اٹھائے جائیں گے، مگر جو لوگ تقوی وسچائی اور اچھی طرح سے معاملہ کریں گے، وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔“

ان دونوں احادیث میں تجارت پیشہ افراد کی بظاہر دو حالتیں بیان کی گئی ہیں: ایک میں ان کی مدح بیان کی گئی ہے تو دوسری میں اس کی مذمت ، یہ دراصل تاجر کی الگ الگ قسموں کا بیان ہے، جو تاجر نیک نیت اور صالح ہو، تجارت سے کسب ِ حلال کا ارادہ کرتا ہو، ایسے لوگوں کا حشر بھی اچھا ہو گا اور وہ اپنی نیک نیتی اور صالحیت کی بنیاد پر قیامت کے دن اونچے مقام کے حامل ہوں گے اور جو لوگ تجارت اسلامی اصول سے ہٹ کر انجام دیتے ہیں، حلال وحرام کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے، فریب دے کر، جھوٹ بول کر، دغادے کر ، دوسروں کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر، بس ایسے تجارت پیشہ افراد کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فاسق وفاجر کہا اور ان کا حشر بھی قیامت کے دن بُرے لوگوں کے ساتھ ہو گا۔

اس لیے اہل علم اور فقہائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں کام یاب اور نفع بخش تجارت کے لیے چند اصول بیان کیے ہیں، جن کی روشنی میں تجارت کی جائے تو دنیا میں بھی نفع ہو گا اور آخرت کے اعتبار سے بھی یہ تجارت بے انتہا اجر وثواب کا باعث ہو گی، یعنی ان کی یہ تجارت دین کی سرگرمیوں میں شامل ہو جائے گی، ایک تاجر کو چاہیے کہ تجارت کرتے ہوئے ضرور ان اصولوں کو پیش نظر رکھے، افادہٴ عام کے لیے نمبر وار ذیل کی سطروں میں ان اصول وضوابط کو لکھا جارہا ہے۔

1…کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ سچائی اختیار کیجیے، جھوٹ بولنے اورجھوٹی قسمیں کھا کر جو لوگ اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہیں، وقتی طور پر اگرچہ نفع معلوم ہوتا ہے، مگر درحقیقت ایسی کمائی اورایسی تجارت سے برکت اٹھالی جاتی ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”فإن صدقا وبینا بورک لھما فی بیعھما، وإن کتما وکذبا محقت برکة بیعھما․“(صحیح بخاری حدیث:1937)

”خریدنے اور بیچنے والے اگر سچائی سے کام لیں او رمعاملے کو واضح کر دیں تو ان کی خرید وفروخت میں برکت دی جاتی ہے اور اگر دونوں کوئی بات چھپالیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے کاروبار سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔“

ایک دوسری روایت میں ہے:

” قیامت کے روز الله تعالیٰ تین شخصوں سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف منھ اٹھا کر دیکھے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا ( اس میں سے ایک وہ ہے) جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔“ (صحیح مسلم حدیث:306)

اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا:

” اپنا مال بیچنے کے لیے کثرت سے جھوٹی قسمیں کھانے سے بچو! یہ چیز وقتی طور پر تو فروغ کی معلوم ہوتی ہے، لیکن آخر کارکاروبار سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔“(صحیح مسلم، حدیث نمبر:4210)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سودا بیچنے والوں کو جھوٹی قسمیں کھانے اور جھوٹ بولنے سے مکمل طور پر احتیاط کرنا چاہیے، جھوٹ کا سہارا لینا، خریدار کو دھوکہ دینا اور دھوکہ دہی بڑے گناہ اور فسادِ عظیم کا باعث ہے، جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔

2…مال کا عیب چھپانے او رخریدار کو فریب دینے سے پرہیز کیجیے، بسا اوقات مال بیچنے والے نقلی مال اصلی بتا کر بیچتے ہیں او رکبھی مال کے عیوب کو چھپالیتے ہیں، اس طرح مال فروخت کرنے پر وہ اپنے آپ کو ہو شیار، چالاک او ربہت عقل مند تصور کرتے ہیں، یاد رکھیے! یہ عقل مندی نہیں، انتہائی گھاٹے کا سودا ہے، یہ لوگ دنیا وآخرت دونوں جگہ خسارے میں رہیں گے۔

” ایک بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں پر کچھ تری محسوس ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلے والے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ دو کان دار نے کہا: یا رسول الله ! اس ڈھیر پر بارش ہو گئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟ جو شخص دھوکہ دے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔“ (صحیح مسلم، حدیث:295)

شریعت کی رو سے تجارت کا اہم اصول یہ ہے کہ مال کا کوئی عیب نہ چھپایا جائے، صاف تمام چیزیں بیان کر دی جائیں، ایسے ہی کاروبار میں غیب سے برکت نازل ہوتی ہے اور وہ کاروبار فروغ پاتا ہے۔

3…کاروبار میں ہمیشہ دیانت وامانت اختیار کیجیے، مال اچھا ہے تو اچھابتائے اور خراب ہے تو اس کی بھی وضاحت کر دیجیے، کبھی کسی کو خراب مال دے کر یا مجبوری کے وقت عرف وعادت سے زیادہ نفع لے کر اپنی حلال کمائی کو حرام نہ بنائے، حرام رزق ساری برائیوں کی جڑ ہے، اس لیے تھوڑا کمائے، مگر حلال اور طیب مال حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، سچے او ر امانت دار تاجروں کی حدیث میں بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔

4…ناپ تو ل میں کمی نہ کیجیے، تجارتی معاملات میں یا عام لین دین میں حق دار کو اس کے حق سے کم دینا ہلاکت او رخسارہ کا باعث ہے، قرآن نے خاص طور پر اس سے دور رہنے کی ہدایت دی ہے اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو الله کیغضب سے بچنے کی تلقین کی:

﴿وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ، أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُم مَّبْعُوثُونَ، لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ، یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾․(المطففین، آیت:6-1)

ترجمہ:” تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں پورا پورا لیتے ہیں، جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں کم دیتے ہیں، کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں، اس دن کہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“

اپنا حق کسی کے ذمے ہو تو اسے حق سے زیادہ وصول کرنا اور دوسروں کا حق اپنے اوپر ہو تو حق سے کم دینا، یہ عام ذہن اور عام سوچ ہے، مگر یہ سوچ اور یہ طریقہٴ کار درست نہیں ہے۔ یہ طریقہ اور انداز غیر شرعی اور ناپسندیدہ ہے، ایسے افراد کے لیے خدا نے تباہی اور ہلاکت کی دھمکی ہے، ظاہر ہے، جس کام پر الله تعالیٰ ہلاکت کی دھمکی دے، اس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہو سکتا ، وہ ہر اعتبار سے بُرا اور قابل نفرت ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو کم تولنے کے بجائے جھکتاتولنے کی نصیحت فرمائی ہے:”زن ورجح․“(ترمذی، حدیث نمبر1353)

”جب تم وزن کیا کرو تو زیادہ کرو۔“

دوسرے موقع پر فرمامایا:”إذا وزنتم فأرجحوا․“(ابن ماجہ، حدیث نمبر2307)

5…تجارت کرنے کے ساتھ حقوق الله کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کاروبار میں ڈوب کر خدا سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، ایسے کاروبار میں کبھی الله کی رحمت نازل نہیں ہوسکتی، تجارت یقیناً اچھی چیز ہے ،مگر اس کے حدود میں رہتے ہوئے یہ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ اس میں مشغولیت ہلاکت اور موجب خسارہ ہے، اس لیے علماء اور اہل تحقیق نے لکھا ہے کہ جب کبھی ایسا موقع آئے کہ ایک طرف معاشی تقاضے ہوں اور دوسری طرف دینی تقاضے تو ایک مؤمن کو چاہیے کہ معاشی تقاضے کو چھوڑ کر دینی تقاضے کی طرف دوڑ پڑے، اگر ایسا کیا تو دنیوی واخروی دونوں اعتبار سے وہ کام یاب ہو گا۔

اسی طرح تجارت پیشہ افراد کو چاہیے کہ ہاتھ پاؤں کاروبار میں مشغول رکھیں اور اپنے دل ودماغ کو خدا کی یاد میں بسائے رکھیں ، ان کی توجہ ہر آن خدا کی طرف لگی ہوئی ہو، جب کبھی اذان ہوتوفوری طور پر مسجد کی طرف دوڑ پڑیں، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے خدا کی حمدوثنا او رعظمت وکبریائی کے کلمات زبان سے نکل رہے ہوں۔

معاش کی اہمیت لوگوں کو اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ یہی سب سے بڑی چیز ہے اور یہی زندگی کا اصل مسئلہ ہے، بلکہ وہ خداکی رحمت اور اس کے اخروی انعام کو ہی اصل اور سب سے بڑی چیز سمجھیں اور کسی بھی حال میں دنیاسیل لونہ لگائیں۔
حضراتِ صحابہ تجارت کرتے تھے، مگر جب بھی الله کا حق سامنے ہوتا وہ تجارت کو چھوڑ کر اس کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتے، حضرت قتادہ رضی الله عنہ کا بیان ہے:

 ”کان القوم یتبایعون ویتحرون، ولکنھم إذانابھم حق من حقوق الله لم تلھھم تجارة ولا بیع عن ذکر الله، حتی یؤدوہ إلی الله․“(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب التجارة فی البر)

” صحابہٴ کرام رضی الله عنہم خرید وفروخت کرتے، تجارت کرتے تھے، لیکن جب انہیں الله کے حقوق میں سے کوئی حق پیش آتا تو تجارت اور بیع الله کے ذکر سے نہ روک سکتی، تا آں کہ وہ الله کے حق کو ادا کر دیتے۔“

صحابہ رضی الله عنہم کی زندگی ہمارے لیے قابلِ تقلید ہے، جن کی رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خاص تربیت فرمائی تھی، ان میں ایمان اتنا راسخ تھا کہ ایمانی تقاضوں پر کسی شے کا غلبہ نہیں ہو سکتا تھا، وہ وہی کرتے جس کا مطالبہ ایمان کی جانب سے ہوتا ، دنیا اور دنیا کی خواہشات نے کبھی ان کے دل ودماغ کو آلودہ نہیں کیا، یقینا ہمارے لیے ان کی زندگی میں ہزارعبرتیں پوشیدہ ہیں۔

6…اپنے مال میں غربیوں کا حق تسلیم کیجیے، اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو مکمل حساب وکتاب کرکے زکوٰة نکالیے اور صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو بھی فقراء ومساکین کو خدا کے نام پر کچھ نہ کچھ دیتے رہیے، صدقہ وخیرات کی عادت ڈالیے کسی سائل کو اپنے در سے محروم نہ کیجیے اور نہ اسے ڈانٹیے اور بُرا بھلا کہیے، کیا معلوم الله تعالیٰ کب کس کی زبان سے نکلی ہوتی بات قبول کر لے؟ وہ شخص خوش ہو گا تو اس کی زبان سے دعائیں نکلیں گی اور نہ دینے پر ناراض ہو گا اور وہ بددعا کرے گا، اس لیے بہتر ہے کہ درپرآنے والا جیسا بھی ہوا سے خالی ہاتھ واپس نہ کریں، اسی طرح دینی اداروں اور ملی کاموں میں بھی مالی تعاون کے ذریعہ حصہ لے کر اپنی اجتماعی حوصلہ مندی اور دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا ثبوت دیجیے۔

7…خریداروں کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا معاملہ کیجیے، اچھے اخلاق، اچھی زبان اور میٹھے الفاظ کے ذریعہ خریداروں کو اعتماد میں لیاجاسکتا ہے، ان کا اعتماد جب آپ پر ہو جائے گا تو دوسری دکانوں کے بجائے وہ آپ کے پاس ہی آئیں گے، ایسے وقت کاروبار کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ خیرخواہی کریں، کم سے کم نفع پر مال دے کر اچھے اخلاق کا ثبوت دیں، ان کو کبھی دھوکہ نہ دیں، اگر کبھی وہ آپ سے ادھار مانگیں تو اپنی گنجائش کے مطابق انہیں مایوس نہ کیجیے اور ادھار دینے کے بعد مطالبہ کے وقت سخت لب ولہجہ استعمال نہ کیجیے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”رحم الله رجلا سمحا إذا باع، وإذا اشتری، وإذا اقتضی․“(صحیح البخاری حدیث نمبر:2076)

”خدا اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید وفروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے کام لیتا ہے۔“

ایک موقع پر یہ بھی فرمایا:”من سرہ أن ینجیہ الله من کرب یوم القیامة فلینفس عن معسر أو یضع عنہ․“(صحیح مسلم حدیث نمبر4083)

”جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ خدا اس کو روز قیامت کے غم اورگھٹن سے بجائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے یعنی معاف کر دے۔“

کسی نے اگر قرض لیا ہو اس سے بھی نرم گفتگو اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ، کیا معلوم کہ وہ کس پریشانی او رتکلیف میں ہے؟ الله کا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم دوسروں کو قرض دے رہے ہیں، ورنہ ہمیں بھی وہ محتاج بنا سکتا تھا۔

8…حرام اشیاء کی تجارت نہ کیجیے، جو اشیاء اسلام نے حرام قرار دی ہیں، ان کو مال تجارت بنانا یا ان کی خرید وفروخت کرنا بھی حرام ہے، جیسے شراب، افیون، ہیروئن وغیرہ… اسی طرح لاٹری، سٹہ بازی، قحبہ گری، سودی لین دین، اخلاق سوز فلمیں اورآ ڈیوویڈیو کیسٹس، آلات موسیقی، گانے بجانے کے اسکول یا اکیڈمیاں، اخلاق سوز ناول، فحش لٹریچر اور رسالے وغیرہ اس ممانعت میں شامل ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”إن الله ورسولہ حرم بیع الخمر والمیتة والخنزیر والأصنام․“(صحیح البخاری حدیث نمبر:2236)

”الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے شراب، مردار، خنزیر اوربتوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے۔“

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:”إن الله إذا حرم شیئا حرم ثمنہ“۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4938)

”الله تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، اس کی قیمت کو بھی حرام قرار دیا ہے ۔“

مذکورہ حدیث میں اگرچہ بعض چیزوں و کا تذکرہ ہے، مگر جتنے ناجائز امور ہیں، ان سب کا یہی حکم ہو گا، مسلمانوں کو چاہیے کہ حرام او رناجائز چیزوں کو بیع کا مال نہ بنائیں، اس میں گناہ اور عصیان پر تعاون لازم آئے گا، جو بجائے خود غضب الہٰی کو دعوت دیتا ہے۔

9…دکان کو وقت پر کھولیے، کوشش کیجیے کہ صبح کی اولیں ساعتوں میں کاروبار کا آغاز کیا جائے، اس لیے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صبح کے وقت کیے جانے والے کاموں میں برکت کی دعافر مائی ہے ، خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم چھوٹا دستہ یا بڑا لشکر روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی وقت روانہ فرماتے، روایت میں ہے:

”حضرت صخر رضی الله عنہ ایک تاجر تھے، جب وہ اپنے آدمیوں کو تجارت کے لیے روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ صاحب ثروت ہوئے اور ان کے پاس مال کی کثرت وفراوانی ہو گئی۔“

آج مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ صبح سویرے سے تجارت وغیرہ کا آغاز کریں، اس طرح سنت پر عمل ہو گا او ربرکت کا ذریعہ بھی، سنتوں پر عمل کا اور غیب سے سامان فروخت ہونے کا انتظام ہو گا او راگر تمام مسلمان مل کر اس پر عمل شروع کردیں تو خود بخود صبح کاروبار شروع ہونے کا ماحول بن جائے گا، ایسی جگہ جہاں تجارت یا کوئی بھی عمل صبح کی اولین ساعت میں شروع کیا جاسکتا ہے، وہاں اس حدیث پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔

اب تک جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ان کا تعلق دنیوی تجارت سے تھا، ایک مسلمان کو دنیوی تجارت اور کاروبار سے زیادہ آخرت کی اس تجارت کی طرف توجہ دینی چاہیے جس کا نفع ابدی اور ازلی ہے، جس پر کبھی فنائیت طاری نہیں ہو گی، جس کی طرف خود الله تعالیٰ نے راہ نمائی کی ہے اور اس کے ذریعہ جہنم کے درد ناک عذاب سے نجات پانے کی تلقین کی ہے 

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَةٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ،تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(الصف:11-10)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچائے؟ ایمان لاؤ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر اورجہاد کرو الله کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔“

اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دنیوی تجارت بھی اسلامی اصول وضوابط کے مطابق انجام دیں! اس لیے کہ ایمان والے اسلامی اصول کے پابند ہیں، اگر تجارت قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائے گئے اصول کے مطابق انجام دیں تو یہ اسلامی تجارت کہلائے گی اور دنیوی سرگرمیاں بھی فکر آخرت کی دائرے میں شامل ہو جائیں گی، آج ہم اپنے کاروبار کا جائزہ لیں، کیا ہماری تجارت، دکانیں اور اقتصادی سرگرمیاں بتائے گئے اصول کے مطابق ہیں؟ آج ہر آدمی کی خواہش ہی مال ودولت جمع کرنا ہے، خواہ وہ حلال راستے سے ہو یا حرام طریقے پر، جس کے سبب مسلمان گھروں سے روحانیت ختم ہوگئی ہے، مال کی کثرت کے باوجود زندگی اور عمل میں خیر وبرکت نہیں، حقیقی سکون اور قلبی طمانینت سے ہم محروم ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ روح کو بالیدگی اورقلب کو سکون ملے، پُر لطف زندگی آپ کو پیاری ہے تو اسلامی تجارت کو اپنائیے اور اسی کے ساتھ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے جو جہنم کی جھلسا دینے والی آگ سے نجات دلانے والی ہے کہ یہی کام یابی حقیقی کام یابی اور لازوال عیش ہے۔

اسلامی نظامِ معیشت کےاصول اور مقاصد

 اسلامی نظامِ معیشت کےاصول اور مقاصد

نظمِ معیشت کے مقاصد :۔


اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے ،اب جو اصول اسلام نے ہم کو دیے ہیں ان کے بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ہم ان مقاصد کو اچھی طرح سمجھ لیں جنہیں اسلام کے معاشی نظام میں ملحوظ رکھا گیا ہے ،کیوں کہ اس کے بغیر ان اصولوں کو نہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ،نہ حالات و ضروریات پر ان کا انطباق کیا جا سکتا ہے ،اور نہ تفصیلی احکام کا استخراج ان کی حقیقی روح کے مطابق ہو سکتا ہے ۔ 


انسانی آزادی :۔

اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف اس حد تک اس پر پابندی عائد کی جائے جس حد تک نوع  انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے ،اسلام انسان کی آزادی کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے ،یہ جواب دہی مشترک نہیں ہے بلکہ ہر شخص فرداً فرداً ذمہ دار ہے اور اس کو فرداً فرداً اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس جوابدہی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے انتخاب کے مطابق کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے اس لیے اسلام افراد کے لیے اخلاقی اور سیاسی آزادی کے ساتھ ان کی معاشی آزادی کو بھی اہمیت دیتا ہے اگر افراد کو معاشی آزادی حاصل نہ ہو تو ان کی اخلاقی اور سیاسی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے ۔آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو آدمی اپنی معاش کے معاملے میں کسی دوسرے شخص یا ادارے یا حکومت کا دست نگر ہو وہ اگر اپنی کوئی آزادانہ رائے رکھتا بھی ہو تو وہ اپنی اس رائے پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہو سکتا ،اس لیے اسلام معاشی نظام کے لیے ہم کو ایسے اصول دیتا ہے جن سے فرد کے لیے اپنی روزی کمانے کیک معاملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی موجود رہے اور اس پر صرف اتنی پابندی عائد کی جائے جتنی حقیقت میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے اسی لیے اسلام سیاسی نظام بھی ایسا چاہتا ہے جس میں حکومت لوگوں کی آزاد مرضی سے بنے ،لوگ اپنی مرضی سے اس کو بدلنے پر قادر ہوں ،لوگو کے ،یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کے مشورے سے اس کا نظام چلایا جائے ،لوگوں کو اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو،اور حکومت کو غیر محدود اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ وہ ان کے حدود کے اندر ہی رہ کر کام کرنے کی مجاز ہو جو قرآن و سنت کے بالاتر قانون نے اس کے لیے مقرر کر دیے ہیں اس کے علاوہ اسلام میں خدا کی طرف سے لوگوں کے بنیادی حقوق مستقل طور پر مقرر کر دیے گئے ہیں جنہیں سلب کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے ،یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ افراد کی آزادی محفوظ رہے اور کوئی ایسا جابرانہ نظام مسلط نہ ہونے پائے جس میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ٹھٹھر کر رہ جائے ۔


اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی :۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسن عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی ،ہمدردی ،احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں ،اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑ ھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان ،عبادات،تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے اس کے ذوق کو بدلا جائے،اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس پیدا کی جائے ،جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے ،ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دباؤ سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے ،اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے ۔


تعاون و توافق اور انصاف کا قیام :۔

تیسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے ،اس لیے وہ انسانی معاشرے کو طبقات میں تقسیم نہیں کرتا ،اور فطری طور پر جو طبقات موجود ہیں ان کو طبقاتی نزاع کے بجائے ہمدردی اور تعاون کی راہ دکھاتا ہے انسانی معاشرے کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہاں دو قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک قسم کے طبقات وہ جو مصنوعی طور پر ایک ظالمانہ سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام ناروا طریقے سے پیدا کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی ان کو قائم رکھتے ہیں ،مثلاً وہ طبقات جو برہمینت نے پیدا کیے ،یا وہ جو جاگیرداری نظام نے پیدا کیے ،یا وہ جو مغرب کے سرمایہ داری نظام نے پیدا کیے ،اسلام نہ خود ایسے طبقات کو پیدا کرتا ہے اور نہ ان کو باقی رکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنی اصلاحی اور قانونی تدابیر سے ان کو ختم کر دیتا ہے ،دوسری قسم کے طبقات وہ ہیں جو انسانی قابلیتوں کے فرق اور انسانی حالات کے فرق کی بنا پر فطرتاً پیدا ہوتے ہیں اور فطری طریقے پر ہی بدلتے رہتے ہیں اسلام ایسے طبقات کو نہ زبردستی مٹاتا ہے نہ ان کو مستقل طبقات میں تبدیل کرتا ہے اور نہ انہیں آپس میں لڑاتا ہے بلکہ وہ اپنے اخلاقی ،سیاسی ،معاشرتی اور معاشی نظام کے ذریعے سے ان کے درمیان منصفانہ تعاون پیدا کرتا ہے ان کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے ،اور تمام لوگوں کے لیے مواقع کی یکسانی بھم پہنچا کر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں یہ طبقات فطری طریقے سے تحلیل اور تبدیل ہو تے رہتے ہیں ۔


بنیادی اصول :۔ 

یہ تین چیزیں ہیں جن کو ہم نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ ہماری سمجھ میں آسکیں گے ،اب اس معاشی نظام کے جو بڑے بڑے اصول ہیں وہ میں مختصر طور پر لکھتا ہوں ۔


شخصی ملکیت اور اس کے حدود:۔

اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کے درمیان ،یا محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اور محنت کے بغیر کمائی ہوئی آمدنی کے درمیان فرق نہیں کرتا ،وہ انسان کو ملکیت کا عام حق دیتا ہے ،البتہ اس کو کچھ حدود سے محدود کردیتا ہے ،اسلام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ ذرائع پیداوار اور اشیائے صرف کی حد تک اس کو محدود کر دیا جائے ،اسلامی نقطہ نظر سے ایک شخص جس طرح کپڑے اور برتن اور گھر کا فرنیچر رکھنے کا مجاز ہے اسی طرح وہ زمین اور مشین اور کارخانہ رکھنے کا بھی مجاز ہے ،اسی طرح ایک شخص جس طرح اپنی براہِراست محنت سے کمائی ہوئی دولت کا جائز مالک ہو سکتا ہے اسی طرح وہ اپنے باپ یا ماں یا بیوی یا شوہر کی چھوڑی ہوئی دولت کا بھی مالک ہو سکتا ہے ،اور وہ مضاربت یا شرکت کے اصول پر ایک ایسی کمائی میں حصہ دار بھی بن سکتا ہے جو اس کے دیے ہوئے سامائے پر کام کر کے ایک دوسرے شخص نے اپنی محنت سے حاصل کی ہو ،اسلام ایک طرح کی ملکیت اور دوسری طرح کی ملکیت کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتا کہ یہ ذرائع پیداوار کی ملکیت ہے یا اشیائے صرف کی ملکیت ،یا یہ محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے یا بے محنت حاصل کی ہوئی دولت ،بلکہ وہ اس لحاظ سے فرق کرتا ہے کہ یہ جائز ذرائع سے آئی ہے یا ناجائز ذرائع سے ،اور اس کا استعمال آپ صحیح طریقے سے کرتے ہیں یا غلط طریقے سے ،اسلام میں پوری معاشی زندگی کا نقشہ اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ انسان کچھ حدود کے اندر اپنی معاش کمانے کے لیے آزاد ہے ،اسلام کی نگا ہ میں انسان کی آزادی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے اور اس آزادی پر ہی وہ آدمیت کے نشوونما کی ساری عمارت تعمیر کرتا ہے ،معاش کے ذرائع و وسائل میں شخصی ملکیت کا حق دینا انسان کو اسی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے ،اگر شخصی ملکیت کا حق اس سے چھین لیا جائے اور تمام وسائل  معاش پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے تو انفرادی آزادی لازماً ختم ہو جاتی ہے ،کیوں کہ اس کے بعد تو معاشرے کے تمام افراد اس ادارے کے ملازم بن جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں پوری مملکت کے وسائل معاش کا کنٹرول ہو ۔


منصفانہ تقسیم :۔

اسلامی نظام  معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم چاہتا ہے اس کے پیش نظر ہر گز یہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان ذرائع زندگی کو برابر تقسیم کیا جائے ،قرآن مجید کو جو شخص بھی پڑے گا اس کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی اس کائنات میں کہیں  بھی مساوی تقسیم نہیں پائی جاتی ، مساوی تقسیم ہے ہی غیر فطری چیز ،کیا تمام انسانوں کو یکساں صحت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کو یکساں ذہانت دی گئی ہے ؟کیا تمام انسانوں کا حافظہ یکساں ہیں ؟کیا تمام انسان حسن میں ،طاقت میں ،قابلیت میں برابر ہیں ؟کیا تمام انسان ایک ہی طرح کے حالاتِ پیدائش میں آنکھیں کھولتے ہیں اور دنیا میں کام کرنے کے لیے بھی سب کو ایک ہی طرح کہ حالات ملتے ہیں ؟اگر ان ساری چیزوں میں مساوات نہیں ہے تو ذرائع پیداوار یا تقسیم دولت میں مساوات کے کیا معنی ؟یہ عملاً ممکن ہی نہیں ہے اور جہاں بھی مصنوعی طور پر اس کی کوشش کی جائے گی وہ لازماً نا کام بھی ہو گی اور غلط نتائج بھی پیدا کرے گی اسی لیے اسلام یہ نہیں کہتا ہے کہ وسائل  معیشت اور ثمراتِ معیشت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہتا ہے کہ منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور اس انصاف کے لیے وہ چند قاعدے مقرر کرتا ہے ۔

ان قواعد میں سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع میں اسلام نے حرام اور حلال کی تمیز قائم کی ہے ایک طرف وہ فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ آزادانہ طریقے سے سعی و جہد کر کے اپنی معاش حاصل کرے اور جو کچھ کمائے وہ اس کی ملکیت ہے دوسری طرف سعی و جہد کرنے کے طریقوں میں اس نے حرام اور حلال کی حدیں مقرر کر دی ہیں اس کے ضابطہ کی رو سے ایک شخص حلال ذرائع سے اپنی روزی کمانے میں پوری طرح آزاد ہے ،جس طرح چاہے کمائے اور جتنا چاہے کمائے ،اس کمائی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک ہے کوئی اس کی جائز ملکیت کو محدود کرنے کا یا اس سے چھین لینے کا حق نہیں رکھتا ،البتہ حرام ذرائع سے ایک حبہ حاصل کرنے کا بھی وہ مجاز نہیں ہے ،ایسی کمائی سے حاصل کی ہوئی دولت کا وہ جائز مالک نہیں ہے ،اس کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو قید ،جرمانے یا ضبطی مال کی سزا بھی دی جائے گی ،اور ارتکاب  جرم سے اس کو روکنے کی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی ۔

جن ذرائع کو اسلام میں حرام کر دیا گیا ہے وہ یہ ہیں :خیانت ،رشوت ،غصب ،بیت المال میں غبن ،سرقہ ،ناپ تو ل میں کمی ،فحش پھیلانے والے کاروبار ،قحبہ گری ،شراب اور دوسرے مسکرات کی صنعت و تجارت ،سود ،جوا ،سٹہ بیع کے وہ تمام طریقے جو دھوکے یا دباؤ پر مبنی ہوں ،یا جن سے جھگڑے اور فساد کو راہ ملتی ہو ،یا جو انصاف اور مفادِ عامہ کے خلاف ہوں ۔ان ذرائع کو اسلام اَز رُوئے قانون روک دیتا ہے ان کے علاوہ وہ احتکار کو ممنوع ٹھہراتا ہے اور ایسی اجارہ داریوں کو روکتا ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر دولت اور اسی پیدائش کے وسائل سے عام لوگوں کو استفادہ کے مواقع سے محروم کرتی ہوں ۔

ان طریقوں کو چھوڑ کر جائز ذرائع سے جو دولت آدمی کمائے وہ اس کی حلال کمائی ہے ،اس حلال دولت سے وہ خود بھی استفادہ کر سکتا ہے ،ہبہ اور بخشش سے دوسروں کی طرف منتقل بھی کر سکتا ہے ،مزید دولت کمانے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے ،اور اپنے وارثوں کے لیے میراث بھی چھوڑ سکتا ہے ،اس جائزکمائی پر کوئی پابندی ایسی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر جاکر مزید کمانے سے روک دیتی ہیء ،ایک شخص حلال ذرائع سے کروڑ پتی بن سکتا ہے تو اسلام اس کے راستے میں حائل نہیں ہے ،جتنی ترقی بھی وہ معاشی حیثیت سے کر سکتا ہے کرے ،مگر جائز ذرائع سے کرے اگرچہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بننا آسان کام نہیں ہے ،غیر معمولی ہی کسی شخص پر اللہ کا فضل ہو جائے تو ہو جائے ،ورنہ جائز ذرائع سے کروڑ پتی بن جانے کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے لیکن اسلام کسی کو باندھ کر نہیں رکھتا ،حلال ذرائع سے وہ جتنا بھی کما سکتا ہو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ،کیونکہ بے جا رکاوٹوں اور حد بندیوں سے انسان کے لیے محنت کرنے کا کوئی محرک باقی نہیں رہتا ۔

اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں :

اس کے استعمال کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اسے اپنی ذات پر خرچ کریاس خرچ پر اسلام ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جن سے وہ آدمی نے اپنے اخلاق اور معاشرے کے لیے کسی طرح نقصان دہ نہ ہوسکے ،وہ شراب نہیں پی سکتا ،زنا نہیں کر سکتا ،جوئے بازی میں اپنی دولت نہیں اڑا سکتا ،عیاشی کی کوئی خلافِ اخلاق سورت اختیار نہیں کرسکتا ،سونے چاندی کے برتن استعمال نہیں کر سکتا ،حتیٰ کہ اگر رہن سہن میں وہ بہت زیادہ شان و شوکت اختیار کرے تو اس پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس کا کم و بیش کوئی حصہ بچا لے اور اس کو روک رکھے اسلام اس کو پسند نہیں کرتا ،وہ چاہتا ہے کہ جو دولت بھی کسی کے پاس پہنچ گئی ہے وہ رک کر نہ رہ جائے بلکہ جائز طریقوں سے گردش میں آتی رہے رکی ہوئی دولت پر ایک خاص قانون کے مطابق اسلام زکوٰۃ عائد کرتا ہے تاکہ اس کا ایک حصہ لازماً محروم طبقات اور اجتماعی خدمات کے لیے استعمال ہو ،قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ جن افعال کی اس میں سخت مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ آدمی خزانے جمع کرنے کی کوشش کرے ،وہ کہتا ہے کہ جو لوگ سونے اور چاندی کے ذخیرے جمع کرتے ہیں ان کا جمع کیا ہوا سونا اور چاندی جہنم میں ان کو داغنے کے لیے استعمال کیا جائے گا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت خدا نے نوع انسانی کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے اسے بند کر کے رکھ لینے کا کسی کو حق نہیں ہے ،آپ جائز ذرائع سے کمائیے ،اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور پھر جو کچھ بچے اسے کسی نہ کسی طرح جائز طریقے سے گردش میں لائے ۔

اسی لیے اسلام احتکار کو بھی منع کرتا ہے احتکار کے معنی یہ ہیں کہ آپ اشیائے ضرورت کو قصداً روک کر رکھیں تا کہ بازار میں ان کی رسد کم ہو اور قیمتیں چڑھ جائیں یہ حرکت اسلامی قانون میں حرام ہے آدمی کو سیدھی طرح تجارت کرنی چاہیے اگر آپ کے پاس کوئی مال بیچنے کے لیے موجود ہے اور بازار میں اس کی مانگ ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ آپ اسے فروخت کرنے سے انکار کریں جان بوجھ کر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا کرنے کے لیے فروخت سے انکار کر دینا آدمی کو تاجر کے بجائے لٹیرا بنا دیتا ہے ۔

اسی بنا ء پر اسلام بے جا نوعیت کی اجارہ داریوں کا بھی مخالف ہے ،کیوں کہ وہ وسائل معاش سے عام لوگوں کے استفادے میں مانع ہوتی ہیں اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا کہ کسب معیشت کے کچھ مواقع اور ذرائع بعض خاص اشخاص یا خاندانوں یا طبقوں کے لیے مخصوص کر دیے جائیں اور دوسرے اگر اس میدان میں آنا چاہیں تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی جائے ،اجارہ داری اگر کسی نوعیت کی جائز ہے تو صرف وہ جو اجتماعی مفاد کے لیے بالکل ناگزیر ہو ،ورنہ اصولا ً اسلام یہ چاہتا ہے کہ جدوجہد کا میدان سب کے لیے کھلا رہے اور ہر شخص کو اس میں ہاتھ پاوں مارنے کے مواقع حاصل رہیں ۔بچی ہوئی دولت کو اگر کوئی شخص مزید دولت کمانے میں استعمال کرنا چاہے تو یہ استعمال صرف ان طریقوں سے ہو سکتا ہے جو کسب  معیشت کے لیے اسلام میں حلال قرار دیئے گئے ہیں.

Featured Post

اسلامی تجارت

اسلامی تجارت عقائد وعبادات کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان ک...